بسم الله الرحمن الرحيم
والدین اپنی اولاد کے لئے عملی نمونہ
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے سب سے افضل اور برتر تھے۔ الله تعالیٰ نے آپ کو اپنا آخری رسول بنا کر بھیجا اور آپ کو سب سے بہترین دین، دین اسلام عطا فرمایا جو انسان کے لئے ایک جامع اور کامل ضابطۂ حیات ہے۔
نیز جب کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی پر نظر ڈالے، تو اس پر یہ بات بین طور پر واضح ہوگی کہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اعلی درجہ کے اخلاق اور شرافت سے نوازا تھا؛ تاکہ آپ کی سنت مبارکہ زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کے لئے قیامت تک بہترین نمونہ بن سکے۔
چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ہر پہلو صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے سامنے بالکل نمایا تھا، خواہ آپ کی گہریلو زندگی جب آپ گھر میں اپنی بیویوں اور بچّوں کے ساتھ ہوتے تھے یا آپ کی سماجی زندگی جب آپ لوگوں کے سامنے مسجد میں امام کی حیثیت سے تھے یا آپ لشکر کے ساتھ مجاہدین کے سامنے امیر اور سردار کی حیثیت میں تھے، ان ساری حالات میں آپ کا مبارک نمونہ امت کے لئے ہر اعتبار سے ایک کامل ومکمل مشعل راہ تھا۔
لہذا بچہ کی تربیت میں جب تک والدین نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرزِ حیات کو اپنی زندگی میں اختیار نہ کریں اور آپ کے اخلاق عالیہ اور عادات شریفہ کو نہ اپنائیں اور گھر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر خود عمل نہ کریں، تو وہ اپنے بچہ کی تربیت میں صحیح رہبری نہ کر سکیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچہ کی تربیت میں مطلوبہ نتائج نہیں دیکھیں گے۔
غرض یہ کہ اپنی زندگی میں اگر ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے بچّوں کی اچھی طرح تربیت کریں، تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق وعادات کو اپنائیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنّتوں پر عمل کریں؛ کیونکہ اگر صرف زبانی طور پر نصیحت اور رہنمائی کی جائے اور خود اس پر عمل نہ کیا جائے، تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
اگر ہم صحابۂ کرام رضی الله عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو کس طرح سے سکھایا تھا اور کس طریقہ سے انہوں نے اپنی اولاد میں اچھی صفات پیدا کیا، تو ہمارے سامنے یہ بات بالکل آشکارا ہوگی کہ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے جس بات کی تبلیغ کی انہوں نے اس پر عمل کیا اور ان کی زندگی کے اعمال ان کے الفاظ کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ان کے لئے گواہ تھے۔
جس طرح والدین کے ذمہ لازم ہے کہ وہ تقوی والی زندگی اختیار کریں؛ تاکہ وہ اپنی اولاد کے لئے ایک عملی نمونہ بن سکیں، اسی طرح ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں الله تعالیٰ اور مخلوق کے حقوق پورا کریں، تاکہ وہ اس شعبہ حیات میں اپنی اولاد کے لئے حقوق کی ادائیگی کا صحیح نمونہ بن سکیں۔ نیز والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد میں دین کی اچھی صفات پیدا کریں خواہ دین کی ظاہری یا باطنی یا روحانی صفات ہوں۔ یہ اس وجہ سے نہایت ضروری ہے کہ جب وہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ کریں، تو وہ اچھا برتاؤ کریں گے اور وہ اسلامی آداب کے ساتھ پیش آئیں گے۔
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو دین سکھایا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ باتیں سکھائی اور آپ کی تعلیمات جامع اور مکمل تھیں جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور شعبوں کو شامل تھیں۔
حضرت انس رضی الله عنہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے خادمِ خاص تھے۔ آپ کو دس سال (حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات تک) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ ان دس سالوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے ساتھ پیار ومحبّت سے پیش آئے اور انہیں دین کی تعلیم دی۔
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
میں نے دس سال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت انجام دی، اس دوران آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے نہیں مارا، نہ ہی کبھی گالی دی، نہ ہی مجھے ڈانٹا اور نہ ہی مجھے ترش روئی سے دیکھا۔
ان سنہری نصیحتوں اور تعلیمات میں سے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں دی تھیں، ان میں سے بعض چیزیں ذیل میں نقل کی جا رہی ہیں:
رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم
اے میرے پیارے بیٹے ! اگر میں تمہیں کچھ راز کی بات بتاؤں، تو تم میرے راز کو ہمیشہ چھپائے رکھنا، اگر تم ایسا کروگے، تو تم سچے مؤمن بن جاؤگے۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چپکے سے ایک راز کی بات بتائی۔ اس کے بعد میری والدہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے مجھ سے پوچھا کہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بتائی وہ بات کیا تھی؟ (چونکہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز تھا اس وجہ سے انہوں نے ان سے پوچھا)؛ لیکن میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا اور میں کبھی بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا کوئی راز کسی کے سامنے ظاہر نہیں کروں گا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اے میرے پیارے بیٹے ! اگر تم ہمیشہ مجھ پر درود بھیج سکتے ہو، (تو ضرور بھیجو)؛ کیونکہ جب تک تم درود بھیجتے رہوگے، فرشتے الله تعالیٰ سے تمہارے لئے مغفرت کی دعا کریں گے۔
ظاہری صفائی کی تعلیم اور نظافت کی عظیم فضیلت
اے میرے پیارے بیٹے ! مکمل وضو کرنے کا اہتمام کرو، اگر تم ایسا کروگے، تو وہ دو فرشتے (جو تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں) تم سے محبّت کریں گے اور تمہاری زندگی میں برکت ہوگی۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ اے انس ! جب تم فرض غسل کر لو، تو اپنے بدن کو اچھی طرح دھو لو؛ کیونکہ (اگر تم اچھی طرح غسل کروگے)، تو تم غسل خانہ سے اس حال میں باہر نکلوگے کہ تم تمام صغیرہ گناہوں سے پاک ہوگے۔ میں نے پھر دریافت کیا: اے الله کے رسول ! اچھی طرح غسل کرنا کیسا ہوگا؟ (یعنی مجھے بتا دیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے اپنے بدن کو اچھی طرح دھو لیا؟) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم غسل کرو، تو ) تم اپنے بالوں کی جڑوں کو تر کرنےکا اہتمام کرو اور بدن کی کھال کو اچھی طرح رگڑو ۔
اے میرے پیارے بیٹے ! اگر تم ہمیشہ باوضو رہ سکتے ہو (تو ضرور رہو)؛ کیونکہ جس کا انتقال وضو کی حالت میں ہوتا ہے، اس کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔
نماز پڑھنے سے الله تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم
اے میرے پیارے بیٹے! تم گھر میں بھی کچھ (نفل) نماز پڑھنے کی کوشش کرو۔ اے انس ! جب تم رکوع کرو، تو اپنی ہتھیلیوں سے اپنے گھٹنوں کومضبوطی سے پکڑو اور اپنی انگلیوں کو کھول کر رکھو اور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلوؤں سے علیحدہ رکھو۔
اے میرے پیارے بیٹے ! جب تم رکوع سے سر اٹھاؤ، تو (سجدہ میں جانے سے پہلے) تمہارا ہر عضو اپنی جگہ پر آنا چاہیئے؛ کیونکہ قیامت کے دن الله تعالیٰ اس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائیں گے جو رکوع سے اٹھنے کے بعد اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرتا ہے۔
اے میرے پیارے بیٹے ! جب تم سجدہ کرو، تو اپنی پیشانی اور ہتھیلیاں پوری طرح زمین پر رکھو اور سجدہ اتنی تیزی سے نہ کرو کہ وہ مرغ کے چونچ مارنے جیسا ہو سجدہ میں اپنے بازوؤں کو زمین پر نہ رکھو کتّے یا لومڑی کے بیٹھنے کی طرح۔ (پھر فرمایا) نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے پرہیز کرو؛ کیونکہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے نماز کا ثواب ضائع ہوتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور ہر مسلمان کے ساتھ خوش گمانی کی تعلیم
اے میرے پیارے بیٹے ! جب تم اپنے گھر سے نکلو، تو مسلمانوں میں سے جس کو بھی دیکھو، اس کو سلام کرو، کیونکہ اگر تم ایسا کروگے، تو جب تم گھر واپس آؤگے، تو تم اس حال میں واپس آؤگے کہ تم تمام صغیرہ گناہوں سے پاک ہوگے۔ میرے پیارے بیٹے ! جب تم اپنے گھر میں آؤ، تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنے گھر سے نکلو، تو مسلمانوں میں سے جس پر بھی تمہاری نظر پڑے، اس کو اپنے سے افضل اور بہتر سمجھو۔
اولاد کی تربیت کی تعلیم
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن بچہ کا عقیقہ کیا جائے، اسے اسلامی نام دیا جائے اور اس کا سر منڈوایا جائے اور جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے، تو اسے اسلامی آداب سکھائے جائیں اور جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائے، تو اس کا بستر اس کے بھائی بہن سے الگ کر دیا جائے اور جب وہ تیرہ سال کی عمرکو پہنچ جائے، تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے اور روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے اسے سزا دی جائے اور مارا جائے۔ پھر جب وہ سولہ سال کی عمر کو پہنچ جائے، تو اس کے والد اس کا نکاح کرا دے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہے: میں نے تمہیں اسلامی تربیت دی، تمہیں دین کے بارے میں سکھایا اور تمہارا نکاح کرا دیا۔ میں الله تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تم دنیا میں میرے لئے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنو اور آخرت میں میرے لئے عذاب کا ذریعہ بنو۔
ہر سنّت کو قائم کرنے کی تعلیم اور جنّت میں داخل ہونے کا آسان طریقہ
اے میرے پیارے بیٹے ! اگر تم اپنے دن اور رات اس طرح گزار سکو کہ تمہارے دل میں کسی کے متعلق کینہ نہ ہو، تو (ایسا) ضرور کرو؛ کیونکہ اس سے تمہارے حساب (الله تعالیٰ کی بارگاہ میں) آسان ہو جائےگا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے ! یہ عمل (اپنے دل کو ہمیشہ صاف رکھنا) میری سنّت ہے اور جو شخص میری سنّت سے محبّت کرتا ہے، تو یقیناً وہ مجھ سے محبّت کرتا ہے اور جو مجھ سے محبّت کرتا ہے وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی شریف)
اے میرے پیارے بیٹے ! اگر تم میری ان نصیحتوں پر عمل کروگے، تو تمہارے نزدیک موت سے زیادہ کوئی چیز پسندیدہ نہیں ہوگی۔
ان زرّیں نصیحتوں سے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ دین میں بچہ کو دین کا علم سکھانے اور سمجھانے کی کتنی زیادہ اہمیّت ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس رضی الله عنہ کو کتنی محبّت، نرمی اور ہمدردی سے سکھایا تھا۔
اگر بچّہ کو پیار ومحبّت اور شفقت وہم دردی کے ساتھ پڑھایا جائے، تو اس کے اندر علم سیکھنے کا شوق اور احکام خداوندی پر عمل کرنے کا جذبہ خود بخود پیدا ہوگا اور اس کے بعد وہ اپنی زندگی کو دین کے احکام کے مطابق گزارےگا۔
الله تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18127