اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے اور ان کے ایمان کو امّت کے لئے ہدایت اور کامیابی کا معیار قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
تو اگر وہ (لوگ) بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو، تو وہ راہِ راست پر آجائیں گے۔ (سورۂ بقرہ، ۱۳۷)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت
جس رات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا، کفّار مکہ نے آپ کے گھر کو گھیر لیا آپ کو قتل کرنے کے لئے۔
روانگی سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے گھر میں رات گزازیں؛ تاکہ کفّار یہ سمجھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تک اندر ہی ہیں اور انہیں احساس بھی نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل چکے ہیں۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے ان کی حفاظت فرمائیں گے۔
اس وقت بڑے خطرے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوشی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو دل سے قبول کیا اور آپ کے حکم پر عمل کیا۔
اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جان بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوئے۔
اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:
وقيت بنفسي خير من وطئ الثرى ٭٭٭ ومن طاف بالبيت العتيق وبالحجر
میں نے اس شخص کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو پیش کیا، جو روئے زمین پر قدم رکھنے والوں میں اور خانۂ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
رسول إلٰه خاف أن يمكروا به ٭٭٭ فنجاه ذو الطول الإلٰه من المكر
وہ شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انہوں نے دشمنوں کی سازش کا خوف محسوس کیا، تو اللہ تعالیٰ نے جو بڑے فضل والے ہیں ان کو دشمنوں کی سازش سے بچایا۔
وبات رسول الله في الغار آمنا ٭٭٭ موقى وفي حفظ الإلٰه وفي ستر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور حفاظت کے ساتھ غار میں رات گزاری اور خدا کی غیبی حفاظت اور پردے میں رہے۔
وبتّ أراعيهم وما يتهمونني ٭٭٭ وقد وطنت نفسي على القتل والأسر
اور میں نے ان کو (کافروں کو) دیکھتے ہوئے رات گزاری، جبکہ ان کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا قتل ہونے اور قید کئے جانے کے لئے۔ (شرح الزرقانی، ج ۲، ص۹۶)