امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کی عظیم فضیلت اور بلند مرتبہ
دنیا میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی مذہب یا دین صرف اسی صورت میں باقی رہ سکتا ہے اور پھیل سکتا ہے جب ان کے لوگوں میں سے کوئی جماعت ہو جو اس مذہب یا دین کی تبلیغ اور اشاعت کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے ہر نبی نے اپنے زمانہ میں اپنے پیروکاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے دین کی تبلیغ کریں اور ان کی تعلیمات کو پھیلائیں۔
لیکن کچھ مدت گزرنے کے بعد پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے مذہبوں کو ان کی قوموں نے بدل دیا اور ایسی چیزیں اس میں ایجاد کر دیں جو اس دین میں نہیں تھیں۔
جہاں تک دین اسلام کی بات ہے، تو الله تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت وصیانت کی ذمہ داری لی ہے؛ لہذا یہ دین قیامت تک ہر طرح کی تحریف وتغییر سے محفوظ رہےگا؛ اگر چہ دشمنان اسلام اس کو مٹانے اور اس کی روشنی کو بجھانے کی انتھک کوشش کریں۔
اسلام کا دفاع کرنے والی جماعت
حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امّت کی ایک جماعت ہمیشہ الله تعالیٰ کے احکام (یعنی شریعت کے احکام) پر قائم رہےگی، اس جماعت کو وہ لوگ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو ان کا ساتھ نہ دیں یا ان کی مخالفت کریں۔ (یعنی یہ جماعت دین کو پھیلاتے رہیں گے اور دین کا دفاع کرتے رہیں گے)؛ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا حکم ان پر آ جائے اس حال میں کہ وہ دین پر قائم ہے (یعنی ان پر موت آ جائے یا وہ دشمن پر غالب آ جائے)۔ (بخاری شریف)
اس حدیث میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے ان سے مراد صحابۂ کرام رضی الله عنہم اور امّت کے وہ نیک علماء اور افراد ہیں جو ہر زمانہ میں دین اسلام کی حفاظت وصیانت میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر زمانہ کے معتمد علماء اس علم کو حاصل کریں گے اور اس کی حفاظت کریں گے اور وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والوں کی تحریف کو، اہل باطل کی افترا پر دازی اور جاہلوں کی تاویلات کو اِس علم سے دور کریں گے۔ (شرح مشکل الآثار)
دین پر قائم رہنے والے اور دین کا دفاع کرنے والے کا بلند مرتبہ
ہمارے آقا ومولا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امّت کو قیامت سے پہلے ایسا سخت زمانا آنے کی پیشن گوئی فرمائی ہے جو فتنوں اور آزمائشوں سے پر ہوگا ،اس زمانہ میں دشمنانِ دین اسلام پر ہر طرف سے حملہ آور ہوں گے اور مسلمانوں سے بر سر پیکار ہوں گے۔ دشمنان دین اسلام کو پورے طور پر مٹانے کے در پے ہوں گے اور اکثر وبیشتر لوگ نفسانی خواہشات اور فتنوں میں مبتلا ہوں گے، اس دور میں دین پر قائم رہنا انتہائی دشوار ہوگا۔
ان فتنوں کی سختی کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئےگا کہ جو شخص دین پر مضبوطی سے قائم رہےگا وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ تھام لے۔ (ترمذی شریف)
لہذا جو لوگ اس پُر فتن دور میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین پر مضبوطی سے قائم رہیں گے اور سنّت کو زندہ کریں گے جہاں کہیں وہ جائیں، وہ لوگ الله تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوں گے، جنہیں جنّت کی خوش خبری دی گئی ہے۔
چناں چہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کا آغاز غربت کی حالت میں ہوا ہے اور عنقریب وہ غربت کی حالت میں واپس ہو جائےگا جس طرح ابتدا میں تھا، پس خوش خبری ہے غرباء کے لئے۔ (مسلم شریف)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ غرباء کے لئے (جنّت کی) خوش خبری ہے (اور یہ وہ لوگ ہیں) جو میرے دین اور سنّت کو درست کریں گے جس کو لوگوں نے میرے (دنیا سے جانے کے) بعد تبدیل کر دیا ہے (یعنی بگاڑ دیا ہے)۔ (ترمذی شریف)
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور ان کو بُرائی سے روکتے ہو اور الله کے راستہ میں جہاد کرتے ہو؛ لیکن ایک ایسا وقت آئےگا کہ تم پر (میری امّت پر) دنیا کی محبّت غالب آئےگی، تو اس وقت تم (میری امّت) نیک کاموں کا حکم نہیں دوگے اور برائی سے نہیں روکوگے اور الله کے راستہ میں جہاد نہیں کروگے، اس زمانہ کے لوگ جو کتاب وسنّت پر عمل کریں گے ان مہاجرین وانصار کے مشابہ ہوں گے (جو اسلام کے شروع میں دین کے لئے قربانیاں دی ہیں)۔ (مجمع الزوائد)
اس حدیث پاک سے ان لوگوں کی فضیلت وعظمت اچھی طرح ظاہر ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں؛ کیونکہ وہ دین کی حفاظت وصیانت کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18719