نکاح کی سنتیں اور آداب – ‏۱٤‏

جن لوگوں کے ساتھ نکاح حرام ہے

شریعت نے مندرجہ ذیل لوگوں سے نکاح کرنے کو حرام قرار دیا:

(۱) محارم یعنی اپنے محرم سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل لوگ آدمی کے محارم میں داخل ہیں؛ لہذا ان سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے اور اگر ان سے نکاح کر لیا جائے، تو وہ نکاح باطل ہوگا:

(ا) فروع یعنی اولاد، پوتے، پوتیاں، پڑپوتے، پڑپوتیاں اور نواسے، نواسیاں وغیرہ

(ب) اصول یعنی والدین، دادا، دادی اور نانا، نانی وغیرہ

(ج) بھائی اور بہنیں

(د) چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں

(ر) بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے اور بھانجیاں

(س) داماد اور بہوئیں

(ص) سسر اور ساس [۱]

(۲) بیک وقت دو بہنوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے؛ جبکہ اس عورت کی بہن پہلے سے اس شخص کے نکاح میں تھی، تو دوسری بہن کا نکاح باطل ہوگا۔

البتہ اگر ایک بہن کا انتقال ہو جائے تو شوہر کے لئے دوسری بہن سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اس کی عدّت گزر جائے، تو شوہر کے لئے بیوی کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ [۲]

(۳) اگر ایک عورت نے دو لڑکیوں کو دودھ پلایا ہو، تو ان دونوں لڑکیوں کے لئے ایک ساتھ ایک آدمی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ وہ دونوں رضاعی بہنیں ہیں اور جس طرح ایک ساتھ دو حقیقی بہنیں ایک آدمی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی ہیں اسی طرح دو رضاعی بہنیں بھی ایک ساتھ ایک آدمی سے نکاح نہیں کر سکتی ہیں۔ [۳]

(۴) اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس عورت کو طلاق دے دے، تو اس عورت کی ماں (اس شخص کی سابق ساس) اس شخص کے لئے حرام ہوگی، خواہ اس شخص نے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو؛ کیونکہ کسی عورت کے ساتھ صرف نکاح کر لینے سے اس کی ماں (ساس) اس آدمی پر حرام ہو جاتی ہے۔ [۴]

(۵) اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس عورت کو طلاق دے دی، تو اس شخص کے لئے اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہوگا، بشرطیکہ اس نے اپنی بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو یا اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ نہ چھویا ہو۔ البتہ اگر اس نے اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی ہو یا اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ چھویا ہو، تو اس شخص کے لئے اس عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ [۵]

(۶) کسی ایک شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی عورت اور اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ بیک وقت نکاح کرے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت اور اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ بیک وقت نکاح کرے، تو دونوں نکاح میں سے دوسرا نکاح باطل ہوگا۔ البتہ اگر وہ اس عورت (پھوپھی یا خالہ) کو طلاق دے دے پھر وہ پھوپھی یا خالہ اپنی عدّت پوری کر لے تو اس شخص کے لئے اس عورت کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کرنا جائز ہوگا، اگر اس کے بر عکس ہو (بھتیجی یا بھانجی کو طلاق دے دے اور عدّت کے بعد اس عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کر لے) تو بھی جائز ہوگا۔ [۶][۷][۸]

ہدایا اور زیورات کا واپس لینا

سوال:- کیا طلاق کی صورت میں شوہر اپنی بیوی سے سارے ہدایا اور زیورات جو اس نے دیئے تھے واپس لے سکتا ہے، کیا اس کے لئے سارے ہدایا اور زیورات واپس لینا جائز ہے؟

جواب:- جو کچھ ہدایا اور زیورات شوہر نے اپنی بیوی کو دیئے وہ بیوی کی ملکیت میں داخل ہو گئی ہے۔ شوہر کے لئے ان ہدایا اور زیورات کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ اگر شوہر واپس لے لے تو یہ ظلم اور حرام ہوگا اور وہ گنہگار ہوگا۔ [۹]


[۱] (لا يحل للرجل أن يتزوج بأمه ولا بجداته من قبل الرجال والنساء) لقوله تعالى حرمت عليكم امهٰتكم وبناتكم والجدات أمهات إذ الأم هي الأصل لغة أو ثبتت حرمتهن بالإجماع (ولا ببنته لما تلونا ولا ببنت ولده وإن سفلت) للإجماع (ولا بأخته ولا ببنات أخته ولا ببنات أخيه ولا بعمته ولا بخالته) لأن حرمتهن منصوص عليها في هذه الآية (وتدخل فيها العمات المتفرقات والخالات المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين) لأن جهة الاسم عامة (ولا بأم امرأته التي دخل بها أو لم يدخل) لقوله تعالى وامهٰت نسائكم من غير قيد الدخول (ولا ببنت امرأته التي دخل بها) لثبوت قيد الدخول بالنص سواء كانت في حجره أو في حجر غيره لأن ذكر الحجر خرج مخرج العادة لا مخرج الشرط ولهذا اكتفي في موضع الإحلال بنفي الدخول (الهداية ۲/۳٠۷)

[۲] (ولا يجمع بين أختين نكاحا ولا يملك يمين وطأ) لقوله تعالى وان تجمعوا بين الاختين (الهداية ۲/۳٠۷)

 ولا يصلح للرجل أن يجمع بين امرأتين ذو محرم أو محرم من رضاع وإن تزوجهما في عقدة واحدة فرق بينه وبينهما … وكذلك لا يحل للرجل أن يتزوج امرأة وأختها تعتد منه أو عمتها أو خالتها أو ابنة أختها أوابنة أخيها … وإذا تزوج إحداهما بعد الأخرى فرق بينه وبين الأخرى (الأصل للشيباني ۱٠/۱۸۳)

أما لو ماتت المرأة فتزوج بأختها بعد يوم جاز (مجمع الانهر ۱/۳۲٤)

[۳] (و) يحرم (الجمع بين الأختين) ولو رضاعا (نكاحا) أي من جهة النكاح (مجمع الأنهر ۱/۳۲٤)

[٤]  (قوله وأم امرأته) بيان لما ثبت بالمصاهرة لقوله تعالى وأمهٰت نسائكم أطلقه فلا فرق بين كون امرأته مدخولا بها أو لا وهو مجمع عليه عند الأئمة الأربعة وتوضيحه في الكشاف ويدخل في لفظ الأمهات جداتها من قبل أبيها وأمها وإن علون (البحر الرائق ۳/۱٠٠)

[۵] (القسم الثاني المحرمات بالصهرية) وهي أربع فرق … (والثانية) بنات الزوجة وبنات أولادها وإن سفلن بشرط الدخول بالأم كذا في الحاوي القدسي سواء كانت الابنة في حجره أو لم تكن كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان (الفتاوى الهندية ۱/۲۷٤)

[٦] ولا يجمع بين المرأة وعمتها أو خالتها أو ابنة أخيها ولا على ابنة أختها لقوله عليه الصلاة والسلام لا تنكح المرأة على عمتها ولا على خالتها ولا على ابنة أخيها أو ابنة أختها وهذا مشهور تجوز الزيادة على الكتاب بمثله ولا يجمع بين امرأتين لو كانت إحداهما رجلا لم يجز له أن يتزوج بالأخرى لأن الجمع بينهما يفضي إلى القطيعة والقرابة المحرمة للنكاح محرمة للقطع ولو كانت المحرمية بينهما بسبب الرضاع يحرم لما روينا من قبل (الهداية ۲/۳٠۸)

[۷] وإن تزوج إحداهما بعد الأخرى جاز نكاح الأولى وفسد نكاح الثانية ولا يفسد نكاح الأولى لفساد نكاح الثانية لأن الجمع حصل بنكاح الثانية فاقتصر الفساد عليه ويفرق بينه وبين الثانية (بدائع الصنائع ۳/٤۳۸)

[۸] وكما لا يجوز للرجل أن يتزوج امرأة في نكاح أختها لا يجوز له أن يتزوجها في عدة أختها وكذلك التزوج بامرأة هي ذات رحم محرم من امرأة تعتد منه (بدائع الصنائع ۳/٤۳۹)

وإذا طلق امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا لم يجز له أن يتزوج بأختها حتى تنقضي عدتها (الهداية ۱/۱۸۸)

[۳] وقوله تعالى: وآتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوا منه شيئا يدل على أن من وهب لامرأته هبة لا يجوز له الرجوع فيها لأنها مما آتاها وعموم اللفظ قد حظر أخذ شيء مما آتاها من غير فرق بين المهر وغيره (أحكام القرآن للجصاص ۲/۱۳۹)

عن أبي حرة الرقاشي عن عمه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا يحل مال امرئ مسلم إلا عن طيب نفس (سنن الدارقطني، الرقم: ۲۸۸٦)

عن سعيد بن زيد رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين (صحيح مسلم، الرقم: ۱٤٠)​

قال: (ولا يرجع أحد الزوجين فيما وهبه للآخر). وذلك لما حدثنا عبد الباقي بن قانع ثنا ابن غنام بالكوفة قال: حدثنا أبو كريب قال: حدثنا مصعب بن المقدام عن خارجة بن مصعب عن أبي الحسين عبد الله بن عمرو بن أمية الضمري عن أبيه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أعطى امرأته عطية، فهي له صدقة. فقال له عمر: لتأتيني بمن يشهد على هذا. فقال: عائشة سمعت هذا، فأرسلوا إلى عائشة، فقالت: صدق. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك. فلما لم يصح الرجوع في الصدقة، لم يصح في الهبة الرجوع، إذ كانت بمثابة الصدقة. وإذا لم يصح رجوع الزوج فيما وهبه لامرأته بدلالة السنة، لم يصح في الهبة رجوعها أيضًا فيما تهبه له، لأن أحدًا لم يفرق بينهما. (شرح مختصر الطحاوي للجصاص ٤/۳۳)

لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته (الدر المختار ٦/۲٠٠)

(ويمنع الرجوع فيها) حروف (دمع خزقه) يعني الموانع السبعة الآتية … (والزاي الزوجية وقت الهبة فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع ولو وهب لامرأته لا) كعكسه (الدر المختار ۵/٦۹۹-۷٠٤)

(والزاي الزوجية) أي الزوجية مانعة من الرجوع لأن المقصود فيها الصلة أي الإحسان كما في القرابة (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ۲/۳٦۲)

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …