‏(۸)‏ جنازہ کے متعلق متفرق مسائل

میّت کو کون غسل دے؟

سوال:- میّت کو کون لوگ غسل دیں؟ میّت کے اہل خانہ میّت کو غسل دیں یا دوسرے لوگ بھی میّت کو غسل دے سکتے ہیں؟ بسا اوقات میّت کے غسل کے وقت بعض لوگ صرف دیکھنے کے لئے آجاتے ہیں، جبکہ میّت کے اہل خانہ اس کو پسند نہیں کرتے ہیں، تو کیا میّت کے اہل خانہ ان لوگوں کو منع کر سکتے ہیں؟

جواب:- بہتر یہ ہے کہ میّت کے اہل خانہ خود میّت کو غسل دیں؛ لیکن اگر میّت کے اہل خانہ موجود نہ ہوں یا وہ موجود ہوں؛ لیکن ان کو دوسرے لوگوں سے مدد لینے کی ضرورت ہوں، تو دوسرے لوگ غسل دینے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

البتہ اگر میّت کے اہل خانہ کسی کی حاضری سے خوش نہ ہوں، تو ان کو چاہیئے کہ مہذّب انداز اور خوش اخلاقی سے ایسے لوگوں کو کہیں کہ غسل کے وقت صرف بعض لوگ غسل دیں گے اور دوسرے لوگ حاضر نہ ہوں۔ [۱]

غسل کے وقت مسح اور خلال

سوال:- کیا غسل دینے کے وقت میّت کی ڈاڑھی اور ہاتھ، پیر کی انگلیوں کے درمیان خلال کیا جائے؟ اسی طرح کیا میّت کے سر اور کانوں کا مسح کیا جائے؟

جواب:- ہاں، میّت کو وضو کراتے وقت وضو کے تمام آداب وسنن کی رعایت کیا جائے۔ جس طرح زندہ آدمی وضو کرتا ہے اسی طرح میّت کا وضو کرایا جائے۔ زندہ آدمی اور میّت کے وضو کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ میّت کو جب وضو کرایا جائے، تو اس کے ہاتھوں کو گٹوں تک نہ دھویا جائے اور نہ اس کے منھ اور ناک میں پانی ڈالا جائے۔ اس کے علاوہ میّت اور زندہ آدمی کے وضو کے درمیان کوئی اور فرق نہیں ہے۔ [۲]

Source:


 

[۱] قال الشامي : ( خاتمة ) يندب الغسل من غسل الميت ويكره أن يغسله جنب أو حائض إمداد والأول كونه أقرب الناس إليه فإن لم يحسن الغسل ‏فأهل الأمانة والورع وينبغي للغاسل ولمن حضر إذا رأى ما يحب الميت ستره أن يستره ولا يحدث به لأنه غيبة وكذا إذا كان عيبا حادثا بالموت ‏كسواد وجه ونحوه ما لم يكن مشهورا ببدعة فلا بأس بذكره تحذيرا من بدعته وإن رأى من أمارات الخير كوضاءة الوجه والتبسم ونحوه استحب ‏إظهاره لكثرة الترحم عليه والحث على مثل عمله الحسن شرح المنية (رد المحتار ۲/۲٠۲) 

‏[۲] (ويوضأ) من يؤمر بالصلاة (بلا مضمضة واستنشاق) للحرج وقيل يفعلان بخرقة وعليه العمل اليوم ولو كان جنبا أو حائضا أو نفساء فعلا اتفاقا ‏تتميما للطهارة كما في إمداد الفتاح مستمدا من شرح المقدسي ويبدأ بوجهه ويمسح رأسه قال الشامي : قوله ( ويوضأ من يؤمر بالصلاة ) خرج ‏الصبي الذي لم يعقل لأنه لم يكن بحيث يصلي‎ ‎قاله الحلواني‎ ‎وهذا التوجيه ليس بقوي إذ يقال إن هذا الوضوء سنة الغسل المفروض للميت لا ‏تعلق لكون الميت بحيث يصلي أو لا كما في المجنون‎ ‎شرح المنية ومقتضاه أنه لا كلام في أن المجنون يوضأ وأن الصبي الذي لا يعقل الصلاة يوضأ ‏أيضا على خلاف ما يقتضيه توجيه الحلواني من أنهما لا يوضئان (رد المحتار ۲/۱۹۵) قال الشامي : قوله ( ولو كان جنبا الخ ) نقل أبو السعود ‏عن شرح الكنز للشلبي أن ما ذكره الخلخالي أي في شرح القدوري من أن الجنب يمضمض ويستنشق غريب مخالف لعامة الكتب اهـ‎ ‎قلت وقال ‏الرملي أيضا في حاشية البحر إطلاق المتون والشروح والفتاوى يشمل من مات جنبا ولم أر من صرح به لكن الإطلاق يدخله والعلة تقتضيه اهـ وما ‏نقله أبو السعود عن الزيلعي من قوله بلا مضمضة واستنشاق ولو جنبا صريح في ذلك لكني لم أره في الزيلعي قوله ( اتفاقا ) لم أجده في الإمداد ‏ولا في شرح المقدسي (رد المحتار ۲/۱۹٦) قال الشامي: قوله ( ويبدأ بوجهه ) أي لا يغسل يديه أولا إلى الرسغين كالجنب لأن الجنب يغسل ‏نفسه بيديه فيحتاج إلى تنظيفهما أولا والميت يغسل بيد الغاسل‎ ‎قوله ( ويمسح رأسه ) أي في الوضوء وهو ظاهر الرواية كالجنب بحر (رد المحتار ‏‏۲/۱۹٦)‏

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …