نماز کی سنتیں اور آداب

 

مردوں کی نماز

مسلمانوں کی زندگی میں نماز کی جو عظیم اہمیت ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ نماز کی اہمیت و عظمت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ بروزِ قیامت سب سے پہلے جس عمل کے بارے میں سوال ہوگا وہ نماز ہے۔

حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

إن أول ما يحاسب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة قال يقول ربنا جل وعز لملائكته وهو أعلم انظروا في صلاة عبدي أتمها أم نقصها فإن كانت تامة كتبت له تامة وإن كان انتقص منها شيئا قال انظروا هل لعبدي من تطوع فإن كان له تطوع قال أتموا لعبدي فريضته من تطوعه ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم (سنن أبي داود، الرقم: ۸٦٤)[۱]

بے شک قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائےگا اور حساب کیا جائےگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائےگا (جب کہ اس کو اچھی طرح ہر چیز معلوم ہے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو کہ اس نے اس کو کامل طور پر ادا کیا تھا یا ناقص طور پر۔ اگر اس کی نماز کامل ہوگی، تو اس کو کامل لکھ دیا جائےگا اور اگر وہ ناقص ہوگی، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے بندے کی فرض نماز کی جو کمی ہے اس کی تلافی کو اس کی نفل نماز سے پوری کر دو۔ پھر دوسرے اعمال کے ساتھ  بھی یہی معاملہ کیا جائےگا۔

نماز کا صحیح وقت اور صحیح طریقہ

جس طرح نماز ادا کرنا اہم ہے، اسی طرح نماز کو صحیح وقت پر صحیح طریقہ سے ادا کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب بندہ اچھی طرح وضو کر کے صحیح وقت پر نماز ادا کرتا ہے اور خشوع وخضوع کے ساتھ اچھی طرح قیام، رکوع اور سجدہ ادا کرتا ہے تو اس کی نماز نورانی اور خوب صورت شکل میں اس بندے کو یہ کہتے ہوئے اوپر جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے، جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ (اس کے بر خلاف) اگر کوئی شخص اچھی طرح وضو نہیں کرتا ہے، وقت پر نماز ادا نہیں کرتا ہے اور خشوع وخضوع  کے ساتھ قیام، رکوع اور سجدہ اچھی طرح ادا نہیں کرتا ہے، تو اس کی نماز اس پر یہ لعنت بھیجتے ہوئے اوپر جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کرے، جس طرح تونے مجھے برباد کیا۔ پھر وہ نماز جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں اوپر جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ نماز گندے چیتھڑے میں لپیٹ کر اس بندے کے چہرہ پر پھینک دی جاتی ہے۔ [۲]

مسجد کی جماعت صلوۃ میں غفلت برتنے والوں کے لیے تنبیہ

نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ امت کے مرد حضرات مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ گھروں میں نماز ادا کر رہے ہیں، تو آپ کو بہت ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر عورتیں اور بچیں گھروں میں نہ ہوتیں، تو میں کچھ نوجوانوں کو حکم دیتا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں اور ان لوگوں کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیں، جو عذر کے بغیر گھروں میں نماز ادا کرتے ہیں۔“ [۳]

ایک مرتبہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ و زاری طاری ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے گریہ وزاری کی وجہ دریافت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ میری امت کے لوگ نمازوں میں کوتاہی کریں گے اور خواہشات نفس کی پیروی کریں گے۔“ [٤]

باجماعت نماز کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ”روزانہ پنج وقتہ نماز کا اہتمام کرو۔ یہ نمازیں اس جگہ ادا کرو جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد میں)۔ بے شک فرض نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا سنن ہدٰی (دین کے اعمال) میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنن ہدٰی (دین کے اعمال) مقرر فرمائے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں منافق کے علاوہ کوئی بھی شخص مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا تھا، یہاں تک کہ مریض بھی باجماعت نماز میں شرکت کرتا تھا اور بعض مریض دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد آتے تھے اور باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ تم میں سے ہر ایک شخص نفل نمازوں کے لیے اپنے گھر میں ایک جگہ متعین کر لے اور وہاں نفل نماز ادا کرے؛ لیکن اگر تم فرض نمازیں اپنے گھروں میں ادا کرنے لگوگے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا چھوڑ دوگے، تو تم اپنے نبی صی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دوگے اور جب تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دوگے، تو تم یقیناً گمراہ ہو جاؤگے۔“ [۵]

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ ”ایسے شخص کا کیا انجام ہوگا، جو دن میں نفلی روزے رکھتا ہے اور ساری رات نفل نمازیں پڑھتا ہے، مگر وہ باجماعت نماز کے لیے مسجد نہیں جاتا ہے اور نہ ہی جمعہ میں شرکت کرتا ہے؟“ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا ”اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔“ [۶]


[۱] هذا الحديث سكت عنه أبو داود والمنذري (مختصر سنن أبي داود، ۱/۳٠٦)

[۲] عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى الصلوات لوقتها وأسبغ لها وضوءها وأتم لها قيامها وخشوعها وركوعها وسجودها خرجت وهي بيضاء مسفرة تقول حفظك الله كما حفظتني ومن صلى لغير وقتها ولم يسبغ لها وضوءها ولم يتم لها خشوعها ولا ركوعها ولا سجودها خرجت وهي سوداء مظلمة تقول ضيعك الله كما ضيعتني حتى إذا كانت حيث شاء الله لفت كما يلف الثوب الخلق ثم ضرب بها وجهه رواه الطبراني في الأوسط وفيه عباد بن كثير وقد أجمعوا على ضعفه قلت ويأتي حديث عبادة بنحو هذا في باب من لا يتم صلاته ويسيء ركوعها  (مجمع الزوائد، الرقم: ۱٦۷۷)

لهذا الحديث شاهد من حديث عبادة بن الصامت قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا توضأ العبد فأحسن الوضوء ثم قام إلى الصلاة فأتم ركوعها وسجودها والقراءة فيها قالت حفظك الله كما حفظتني ثم أصعد بها إلى السماء ولها ضوء ونور وفتحت لها أبواب السماء وإذا لم يحسن العبد الوضوء ولم يتم الركوع والسجود والقراءة قالت ضيعك الله كما ضيعتني ثم أصعد بها إلى السماء وعليها ظلمة وغلقت أبواب السماء ثم تلف كما يلف الثوب الخلق ثم ضرب بها وجه صاحبها رواه الطبراني في الكبير والبزار بنحوه وفيه الأحوص بن حكيم وثقه ابن المديني والعجلي وضعفه جماعة وبقية رجاله موثقون (مجمع الزوائد، الرقم: ۲۷۳٤)

[۳] عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد ناسا في بعض الصلوات فقال لقد هممت أن آمر رجلا يصلي بالناس ثم أخالف إلى رجال يتخلفون عنها فآمر بهم فيحرقوا عليهم بحزم الحطب بيوتهم ولو علم أحدهم أنه يجد عظما سمينا لشهدها يعني صلاة العشاء (صحيح مسلم، الرقم: ٦۵۱)

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لولا ما في البيوت من النساء والذرية لأقمت صلاة العشاء وأمرت فتياني يحرقون ما في البيوت بالنار (مسند أحمد، الرقم: ۸۷۸۲)

[٤] عن ابن عباس رضي الله عنهما قال لما حج النبي صلى الله عليه وسلم حجة الوداع أخذ بحلقتي باب الكعبة ثم أقبل بوجهه على الناس فقال يا أيها الناس قالوا لبيك يا رسول الله يفديك آباؤنا وأمهاتنا ثم بكى حتى علا انتحابه فقال يا أيها الناس إني أخبركم بأشراط القيامة إن من أشراط القيامة إماتة الصلوات واتباع الشهوات والميل مع الهوى وتعظيم رب المال (الإشاعة لأشراط الساعة صـ ۱۷۱)

[۵] عن عبد الله بن مسعود قال حافظوا على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن فإنهن من سنن الهدى وإن الله شرع لنبيه صلى الله عليه وسلم سنن الهدى ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق بين النفاق ولقد رأيتنا وإن الرجل ليهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف وما منكم من أحد إلا وله مسجد في بيته ولو صليتم في بيوتكم وتركتم مساجدكم تركتم سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ولو تركتم سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم لكفرتم (سنن أبي داود، الرقم: ۵۵٠)

[٦] وسئل ابن عباس عن رجل يصوم النهار ويقوم الليل لا يشهد جمعة ولا جماعة فقال هو في النار (سنن الترمذي، الرقم: ۲۱۸)

Check Also

ماہِ رمضان کے سنن و آداب- ۱

(۱) رمضان سے پہلے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیں۔ بعض بزرگانِ دین رمضان کی تیاری رمضان سے چھ ماہ قبل شروع فرما دیتے تھے...