سورۃ الزِلزَال کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اِذَا  زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ  زِلۡزَالَہَا  ۙ﴿۱﴾وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا ۙ﴿۲﴾ وَ  قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ﴿۳﴾ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ  اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾ بِاَنَّ  رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾ یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ  النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ ؕ﴿۶﴾ فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ  شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾

جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلادی جائےگی ﴿۱﴾ اور  زمین اپنے  بوجھ باہر نکال پھینگےگی ﴿۲﴾ اور اس حالت کو دیکھ  کر کافر آدمی کہےگا اس کو کیا ہوا ﴿۳﴾ اس دن زمین  اپنی خبریں بیان کرنے لگے گی﴿۴﴾ اس سبب سے کہ آپ کے رب کا اس کو یہی  حکم ہوگا ﴿۵﴾ اس دن لوگ مختلف جماعتیں ہوکر آئیں گے؛ تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں ﴿۶﴾ تو جس نےذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لےگا ﴿۷﴾ اور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ہوگی، وہ اس کو بھی دیکھ لےگا ﴿۸﴾

تفسیر

اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا  ۙ﴿۱﴾ وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا ۙ﴿۲﴾ و قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ﴿۳﴾

جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلادی جائےگی ﴿۱﴾ اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینگےگی ﴿۲﴾ اور اس حالت کو دیکھ کر کافر آدمی کہےگا اس کو کیا ہوا ﴿۳﴾

قیامت کے دن زمین سخت زلزلہ سے ہلنے لگے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی۔ جو بھی چیز یں زمین کے اندر ہیں ان سب کو زمین باہر اُگل دےگی۔

زمین کے بوجھ سے مراد وہ مردے ہوں یا خزانے یا دوسری قیمتی چیزیں جیسے سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات وغیرہ جو زمین کے اندر پوشیدہ ہیں۔ اُس دن خزانے (ہیرے ،جواہرات وغیرہ) زمین کی سطح کے اوپر یونہی پڑے رہیں گے، کوئی ان کو لینے والا بھی نہیں ہوگا۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ لوگوں  کے سامنے یہ آشکارا کر دیں گے کہ دیکھو ! جن چیزوں کے پیچھے تم بھاگتے تھے، ان کی آج کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے۔

 امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ اس دن قاتل آئےگا اور کہے گا: کیا یہ وہی چیز ہے، جس کی وجہ سے میں نے ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ایک دوسرا شخص جس نے مال کی وجہ سے قطع تعلق کیا ہوگا وہ آئےگا اور کہے گا کیا یہ وہی مال ہے، جس کی وجہ سے میں نے اپنے رشتہ داروں سے تعلق توڑ لیا تھا۔

اسی طرح قیامت کے دن زمین اپنے تمام خبریں اور واقعات ظاہر کرے گی، جو روئے زمین پر پیش آ چکے ہوں گے۔ جب لوگ یہ دیکھےگے کہ زمین ہر چیز ظاہر کر رہی ہے، یہاں تک کہ انسانوں کے اچھے اور بُرے اعمال کے بارے میں بھی زمین بتا رہی ہے، تو لوگ تعجّب سے سوال کریں گے: ما لها (اس زمین کو کیا ہو گیا ہے؟)

یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾

اس دن زمین  اپنی خبریں بیان کرنے لگے گی﴿۴﴾اس سبب سے کہ آپ کے رب کا اس کو یہی  حکم ہوگا ﴿۵﴾

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ زمین ان تمام اعمال وافعال کی گواہی دےگی، جو انسانوں نے (مردہو یا عورت) روئے زمین پر کیے ہیں۔

یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ ؕ﴿۶﴾

اس دن لوگ مختلف جماعتیں ہوکر آئیں گے؛ تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں ﴿۶﴾

دنیا کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ نیک اور بُرے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی ہے؛ لیکن قیامت کے دن ایسا نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کردیں گے۔ اچھے اور بُرے لوگ الگ الگ جماعت میں ہوں گے۔ اِس طریقے سے لوگوں کے سامنے ان کے اعمال کا نتیجہ اچھی طرح ظاہر ہو جائے گا۔

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ  شَرًّا یَّرَہٗ ﴿۸﴾

تو جس نےذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لےگا ﴿۷﴾ اور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ہوگی، وہ اس کو بھی دیکھ لےگا ﴿۸﴾

قیامت کے دن انسان اپنے ہر اچھے اور بُرے عمل کو (خواہ وہ ذرّہ برابر کیوں نہ ہو) اپنی آنکھوں سے دیکھ لےگا؛ لہذا اس کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی عمل کو معمولی اور حقیر نہ سمجھے؛ بلکہ ہر نیک عمل کی قدر کرے اور ہر گناہ سے اجتناب کرے؛ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ انسان جس نیک عمل کو معمولی اور حقیر سمجھتا ہے، وہی اس کے لیے نجات اور فلاح کا ذریعہ بن جائے اور جس بُرے عمل کو معمولی سمجھ رہا ہے، وہی اس کے لیے ہلاکت و بربادی کا سبب بن جائے۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …