باغِ محبّت(آٹھویں قسط)

بسم الله الرحمن الرحيم

جنّت کی کنجی

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبّت کا راستہ سکھاتا ہے اور جنّت تک لے جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے س بندے کو اللہ رب العزّت کی خوشنودی اور دنیا و آخرت میں کامیابی ملتی ہے۔ اسلام کے تمام فرائض میں ”نماز“ کا درجہ سب سے بلند و برتر ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے”نماز جنّت کی کنجی ہے“ دوسری حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”نماز روشنی ہے۔“ (صحیح البخاری)؛ لہذا اگر کوئی بندہ اپنی زندگی کو منوّر کرنے کا خواہش مند ہے، تو وہ نماز کی پابندی کرے۔

موجودہ دور میں دنیا کے بہت سے ممالک اقتصادی تنزلی اور انحطاط کا سامنا کر رہے ہیں اور معاشی تنگیوں سے دوچار ہیں۔ چنانچہ اس عالمی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے نِت نئی اسکمیں لائی جارہی ہیں اور وہ تمام طریقے اپنائے جارہے ہیں جن سے ملکوں کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جا سکے؛ لیکن قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی میں برکت کا سبب ”نماز“ کو قرار دیا ہے۔

کُتبِ حدیث میں منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا، تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس کو نمازکی تعلیم دیتے۔ (مسندِ بزار) نیز اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ پر نظر ڈالیں، تو ہمیں نظر آئے گا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی نماز قائم کرنے کی جدوجہد اور تگ دو میں صرف کر دی تھی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا اور مدینہ منوّرہ تشریف لائے، تو سب سے پہلے آپ کو مسجد کی بنیاد رکھنے اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کی فکر لاحق ہوئی اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ہر محلہ میں ایک مسجد بنائی جائے اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیا جائے۔

متعدد احادیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں نماز کی اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ نماز دین کا مرکزی ستون ہے۔ یعنی جو شخص اس مرکزی ستون کی حفاظت کرےگا (نماز کی پابندی کرےگا) اس کا پورا دین محفوظ رہےگا اور جو شخص اس مرکزی ستون کی حفاظت نہیں کرےگا، اس کا پورا دین ضائع اور برباد ہو جائےگا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نماز کے بارے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل اور فکر و توجّہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے؛ لیکن جوں ہی اذان کی آواز آپ کے کانوں میں پڑتی، آپ فوراً مسجد کے لیے نکل جاتے تھے۔

ایک بار بنو ثقیف کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا؛ لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں جہاد کے لیے نکلنے، عُشر دینے اور نماز ادا کرنے سے مستثنیٰ رکھا جائے یعنی ان احکام میں ہمیں چھوٹ دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلی دو چیزوں (جہاد اور عُشر) میں چھوٹ دی؛ لیکن نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اور ارشاد فرمایا کہ اس دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں نماز نہ ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں نماز کی اس قدر اہمیّت جاگزیں ہوگئی تھی کہ اگر وہ مرض الوفات میں بھی ہوتے، پھر بھی دین کے اس عظیم ستون (نماز) سے غافل نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ  جس صبح کو انہیں نیزہ مارا گیا تھا، حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب آپ وہاں پہونچے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیہوشی کے عالم میں تھے۔ حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فجر کی نماز ادا کر چکے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، کیوں کہ اب تک ان کو افاقہ نہیں ہوا ہے۔ حضرت مسور رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی میں نماز کو کتنی اہمیت دی ہے۔ لہذا انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ انہیں یہ کہہ کر بیدار کرو کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے آواز دی: اے امیر المؤمنین ! نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ جوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے”نماز“ کا لفظ سنا، فوراً بیدار ہو گئے اور فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم اس شخص کے لیے اسلام میں کوئی حصّہ نہیں ہے، جو نماز میں غفلت برتے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی۔ (مجمع الزوائد) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے، تو انہوں نے حاضرین سے دریافت کیا کہ کیا لوگ فجر کی نماز ادا کر چکے ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جب آپ کو نیزہ مارا گیا اور آپ بیہوش ہو گئے، تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی امامت فرمائی۔ یہ سُن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطمینان ہوا۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ نماز پر قائم رکھے اور زندگی کے تمام امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنّت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=16706


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …