نہ بکنے والے سامان پر زکوٰۃ

سوال:-کیا  ایسے سامانِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے جو نہ بکتا ہو؟

الجواب حامدًا و مصلیًا

اگر نہ بکنے والے سامانِ تجارت سے وہ سامانِ تجارت مراد ہے جو بہت جلدی نہیں بکتا ہے؛ لیکن مالک نے اس کو تجارت کے لئے رکھا، تو اس سامانِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے۔

اگر نہ بکنے والے سامان سے وہ سامان مراد ہے جس کو فروخت کرنے کا ارادہ مالک نے ختم کر دیا، تو اس سامان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے؛ کیونکہ جب مالک نے اس سامان کو فروخت کرنے کا ارادہ ختم کر دیا، تو وہ سامان سامانِ تجارت نہیں رہا؛ لہذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔

فقط واللہ تعالی اعلم

( لا يبقى للتجارة ما ) أي عبد مثلا ( اشتراه لها فنوى ) بعد ذلك ( خدمته) (الدر المختار ۲/۲۷۲)

(ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة (الهداية ۱/۹٦)

ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة كذا في الزاهدي (الفتاوى الهندية ۱/۱۷٤)

ولو اشتراها بنية التجارة ثم نوى ألا تكون للتجارة خرجت من كونها للتجارة (الفتاوى التاتارخانية ۳/۱٦۷)

ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة كذا في الزاهدي (الفتاوى الهندية ۱/۱۷٤)

الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قميتها نصابا من الذهب أو الورق يقومها بما هو أنفع للفقراء والمساكين منهما (مختصر القدوري صـ ۵۷)

دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین

اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ

Source: http://muftionline.co.za/node/37

Check Also

صاحب اہل وعیال پر حج کی فرضیت کے لیے کتنے مال کا مالک ہونا ضروری ہے؟

سوال:- صاحب اہل وعیال کے پاس کتنا مال ہو، تو اس پر حج فرض ہوگا؟