مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ

سوال:- کون سے مال پر زکوٰۃ فرض ہے؟

الجواب حامدًا و مصلیًا

مندرجہ ذیل اموال پر زکوٰۃ فرض ہے:

‏(۱) نقد مال جو آدمی کے قبضے میں ہیں یا جو اس نے بینک میں جمع کیا ہے، ان سب پر زکوٰۃ فرض ہے۔

‏(۲) جو مال لوگوں کو قرض کے طور پر دیا ہے یا جو دیون لوگوں کے ذمہ ہیں اس کے لیے تجارتی سامان ‏فروخت کرنے کے بدلہ، ان سب قرضوں اور دیون پر زکوٰۃ فرض ہے۔

‏(۳) بیرونی سکےّ جو آدمی کی ملکیت میں ہیں، ان سب پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ مثلاً ڈالر، پاؤنڈ وغیرہ۔

‏(٤) سونا اور چاندی جو آدمی کی ملکیت میں ہیں، ان سب پر زکوٰۃ فرض ہے۔

‏(۵) اگر کسی تجارتی کمپنی میں حصے ہیں، تو اپنے حصے کے مطابق کمپنی کے سامانِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے ‏‏(یعنی بازاری قیمت کے اعتبار سے جو بھی اپنے حصّہ کی قیمت ہے، اس پر زکوٰۃ فرض ہے)، اس میں وہ ‏چیزیں شامل نہیں ہیں، جو سامان تجارت کےحصّے نہیں ہیں، مثلاً کمپنی کی عمارت، عمارت میں لگے ہوئے ‏سامان اور دوسری چیزیں مثلاً الماریاں، کرسیاں اور کمپنی کی گاڑیاں وغیرہ، ان چیزوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ‏ہے؛ بلکہ صرف ان چیزوں کی قیمت لگائی جائےگی، جو کمپنی کے مال تجارت میں شامل ہیں۔ ‏

‏(٦) تجارتی سامان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ تجارتی سامان کی قیمت بازاری قیمت کے لحاظ سے ہوگی۔ بازاری ‏قیمت کا مطلب یہ ہے کہ وہ سامان بازار میں اکثر جگہوں میں کتنی قیمت میں بکتا ہے، اس کے حساب سے اس ‏کی قیمت لگا کر زکوٰۃ ادا کی جائےگی۔ اگر سامانِ تجارت ایسے ہیں جو مختلف چیزوں کو ملا کر بنتے ہیں۔ (مثلاً ‏کرتے کے لیے کپڑے، دھاگہ، بٹن وغیرہ کی ضرورت ہے)، تو ان چیزوں پر بھی ان کی قیمت کے مطابق ‏زکوٰۃ فرض ہے، کیونکہ یہ چیزیں بھی تجارت کے لیے خریدی گئی ہیں۔

‏(۷) مالیاتی دستاویزات کی قیمت، مثلاً بانڈ (‏Bond‏) کی رقم جو آدمی نے حکومت کو بطورِ قرض دی ہے، ‏ان سب پر زکوٰۃ فرض ہے۔

نوٹ:- یہ مسئلہ ذہن میں رہنا چاہیئے کہ جب حکومت قرض ادا کرےگی، تو وہ سود کے ساتھ ادا کرےگی، ‏جب آدمی کو وہ رقم سود کے ساتھ واپس ملے، تو اس میں سے اس کے لئے صرف اس رقم کا لینا اور استعمال ‏کرنا درست ہے، جو اس نے حکومت کو بطورِ قرض دی ہے۔ جو رقم اس کو بطورِ سود ملی ہے قرض کے اوپر، تو اس کا استعمال کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ اس پر ضروری ہے کہ وہ اُس سودی رقم کو ثواب کی ‏نیت کے بغیر کسی غریب کو دے دے؛ کیونکہ مسلمان کے لیے کسی بھی قسم کا سودی معاملہ اور لین دین ‏کرنا جائز نہیں ہے۔

فقط واللہ تعالی اعلم

(لا زكاة في اللآلىء والجواهر ) وإن ساوت ألفا اتفاقا ( إلا أن يكون للتجارة ) والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة (الدر المختار ۲/۲۷۳)

وآلات الصناع الذين يعملون بها وظروف الأمتعة لا تجب فيها الزكاة (الفتاوى التاتارخانية ۱٦۹/۳)

(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوي ومتوسط وضعيف (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك ويعتبر ما مضى من الحول قبل القبض في الأصح ومثله ما لو ورث دينا على رجل (و) عند قبض (مائتين مع حولان الحول بعده) أي بعد القبض (من) دين ضعيف وهو (بدل غير مال) كمهر ودية وبدل كتابة وخلع

قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: قوله (في الأصح) قد علمت أنه ظاهر الرواية وعبارة الفتح و البحر في صحيح الرواية قلت لكن قال في البدائع إن رواية ابن سماعة أنه لا زكاة فيه حتى يقبض المائتين ويحول الحول من وقت القبض هي الأصح من الروايتين عن أبي حنيفة اهـ ومثله في غاية البيان وعليه فحكمه حكم الدين الضعيف الآتي (رد المحتار ۲/۳٠٦)

وزكاة الدين على أقسام فإنه قوي ووسط وضعيف فالقوي وهو بدل القرض ومال التجارة إذا قبضه وكان على مقر ولو مفلسا أو على جاحد عليه بينة زكاة لما مضى ويتراخى وجوب الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم لأن ما دون الخمس من النصاب عفو لا زكاة فيه وكذا فيما زاد بحسابه والوسط وهو بدل ما ليس للتجارة كثمن ثياب البذلة وعبد الخدمة ودار السكنى لا تجب فيه الزكاة فيه ما لم يقبض نصابا ويعتبر لما مضى من الحول من وقت لزومه لذمة المشتري في صحيح الرواية والضعيف وهو بدل ما ليس بمال كالمهر والوصية وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة والسعاية لا تجب فيه الزكاة ما لم يقبض نصابا ويحول عليه الحول بعد القبض وهذا عند الإمام وأوجبا عن المقبوض من الديون الثلاثة بحسابه مطلقا (مراقي الفلاح صـ ۷۱۵-۷۱٦)

وذكر محمد فى الرقيات أنه يقوم فى البلد الذى حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقدا فيما بينهم يعني غالب نقد ذلك البلد ولا ينظر الى موضع الشراء ولا الى موضع المالك وقت حولان الحول وروي عن أبي يوسف أنه يقوم بما اشترى به وفى الخلاصة إن كان الثمن من النقود لأنه أبلغ فى معرفة المالية وإلا فبالنقد الغالب وبه قال الشافعى وفى الولوالجية يقوم يوم حال عليها الحول بالغة ما بلغت بعد أن كات قيمتها فى أول الحول مائتين ويزكى مائتى درهم خمسة دراهم (الفتاوى التاتارخانية ۱٦۵/۳)

نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مئتا درهم كل عشرة دراهم وزن سبعة مثاقيل (الدر المختار ۲/۲۹۵)

 

دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین

اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ

Source: http://muftionline.co.za/node/29

Check Also

صاحب اہل وعیال پر حج کی فرضیت کے لیے کتنے مال کا مالک ہونا ضروری ہے؟

سوال:- صاحب اہل وعیال کے پاس کتنا مال ہو، تو اس پر حج فرض ہوگا؟