سورۂ ماعون کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾‏‎ ‎فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ ۙ﴿۲﴾ ‏وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ؕ﴿۳﴾‏‎ ‎فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾‏‎ ‎الَّذِیۡنَ ہُمۡ  یُرَآءُوۡنَ ۙ﴿۶﴾‏‎ ‎ وَ یَمۡنَعُوۡنَ الۡمَاعُوۡنَ ﴿۷﴾‏‎ ‎‏‎ ‎

کیا آپ نےاس شخص کو دیکھا ہے جو روزِ جزا کے دن کو جھٹلاتا ہے(۱) تو وہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے(۲) اور محتاج کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا (۳) پھر بڑی خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے (۴) جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں (۵) جو ریا کاری کرتے ہیں (۶) اور (دوسروں کو) معمولی چیز (بھی) دینے سے انکار کرتے ہیں (۷)

تفسیر

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾‏‎ ‎فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ ۙ﴿۲﴾ ‏وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ؕ﴿۳﴾‏

کیا آپ نےاس شخص کو دیکھا ہے جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے (۱) تو وہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (۲) اور محتاج کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا (۳)

لفظ ”دین“ کے مختلف معانی ہیں: ایک معنی دین اسلام کا ہے اور دوسرا معنی قیامت کا ہے۔ آیت کریمہ میں دونوں معانی مراد لئے جا سکتے ہیں یعنی وہ کافر جو دین اسلام کا منکر ہے یا وہ جو قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی آیتیں عاص بن وائل کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جو بخل اور کنجوسی میں مشہور تھا؛ لیکن یہ بات مسلمّ ہے کہ یہ سورت اس کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ ان آیات کا مضمون عام ہے اور دوسرے لوگ بھی ان آیات کے مخاطب ہیں؛ لہذا مسلمانوں کو بھی اس سے سبق لینا چاہیئے اور اعمال قبیحہ جیسے کہ یتیموں کے ساتھ بد سلوکی اور غریبوں کو کھانا نہ دینا وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

مؤمن اور کافر کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ مؤمن قیامت پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے حساب وکتاب سے ڈرتا ہے، جب کہ کافر قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ہے؛ لہذا اس کے دل میں آخرت کے حساب وکتاب کا ڈر بھی نہیں ہوتا ہے؛ لیکن مؤمن ہر لمحہ  اس بات کو ذہن میں رکھتا ہے کہ اس کا رب اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کو اپنے ہر چھوٹے اور بڑے عمل کا اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن حساب دینا ہوگا۔

چوں کہ کافر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور قیامت کے دن کے حساب کتاب کا ڈر نہیں رکھتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو طاقتور اور بے نیاز سمجھتا ہے۔ وہ یتیموں، غریبوں اور مسکینوں کی خبرگیری نہیں کرتا ہے؛ بلکہ وہ اپنے مال ودولت پر فخر کرتا ہے، جب کہ اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ حالات کبھی بھی بدل سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے مال چھین لیں اور غریبوں اور یتیموں کو نواز دیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آج جو شخص مال دار ہے، کل غریب ہو سکتا ہے اور جو آج غریب ہے، کل مال دار ہو سکتا ہے۔

اس بنا پر اللہ تعالیٰ ان آیاتِ کریمہ میں ہمیں اُن بُرے اعمال (قیامت کے دن کا انکار، یتیموں کے ساتھ بد سلوکی، یتیموں اور محتاجوں کو کھانا نہ کھلانا وغیرہ) پر متنبہ کر رہے ہیں اور مؤمنین کو یتیموں، محتاجوں اور مفلسوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی ترغیب دے رہے ہیں۔

فَوَیۡلٌ  لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۴﴾‏‎ ‎الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾‏‎ ‎الَّذِیۡنَ ہُمۡ  یُرَآءُوۡنَ ۙ﴿۶﴾‏‎ ‎ وَ یَمۡنَعُوۡنَ الۡمَاعُوۡنَ ٪﴿۷﴾

پھر بڑی خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے(۴) جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں(۵)جو ریا کاری کرتے ہیں(۶) اور (دوسروں کو) معمولی چیز (بھی) دینے سے انکار کرتے ہیں(۷)

ان آیاتِ کریمہ میں الله سبحانہ وتعالیٰ ان مؤمنین کا تذکرہ فرما رہے ہیں جو اپنی نمازوں کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بخل سے پیش آتے ہیں۔

الله تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، تو اخلاص کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ دکھانے کے لئے نماز پڑھتے ہیں؛ تاکہ دوسرے لوگ ان کو نیک مسلمان سمجھیں۔

چنانچہ جب یہ لوگ دوسرے لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے ہیں، تو یا وہ سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے ہیں یا وقت پر وہ نماز نہیں پڑھتے ہیں؛ بلکہ نماز کو قضا کرتے ہیں یا جس طرح نماز کو پڑھنی چاہیئے، وہ اس طرح نماز نہیں پڑھتے ہیں یعنی وہ نماز کو اپنی سنن وآداب کی رعایت کے ساتھ ادا نہیں کرتے ہیں (جیسے وقت پر باجماعت نماز پڑھنا، ارکان نماز: قیام، رکوع اور سجدہ وغیرہ اچھی طرح ادا کرنا)۔ ان امور کی رعایت نہیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں ان کے دلوں میں نماز کی سچی محبّت اور اہمیّت نہیں ہے۔

اسی طرح یہ لوگ انتہائی بخیل اور کنجوس ہیں۔ غریبوں اور محتاجوں کو معمولی چیز بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ لفظ ”ماعون“ عربی زبان میں معمولی اور سَستی چیز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسے برتن، نمک اور چینی وغیرہ۔

اگر کسی شخص کو ایسی معمولی چیز کی ضرورت ہو، تو جس آدمی کے پاس یہ چیز موجود ہو، اسے چاہیئے کہ ضرورت مند کو استعمال کے لئے دے اور اس کی مدد کرے۔

لفظ ”ماعون“ زکوٰۃ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ یہ معنی حضرت علی رضی الله عنہ سے منقول ہے۔

زکوۃ کو”ماعون“ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ مقدار کے اعتبار سے نسبۃً بہت قلیل ہے یعنی صرف چالیسواں حصہ۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان آیات کریمہ میں ان اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ذریعہ انسان کی قدر الله تعالیٰ کی نگاہ میں ہوتی ہے۔

ہر انسان کو ہمہ وقت اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ وہ الله تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرے اور احکام دینیہ: نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ پابندی سے بغیر کسی غفلت اور سستی کے ادا کرے۔

اسی طرح انسان کو اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ وہ لوگوں کے حقوق کو صحیح طریقہ پر ادا کرے اور عزیز واقارب، پڑوسی، دوست، احباب، یتیموں، مسکینوں اور محتاجوں کے ساتھ شفقت وہم دردی کے ساتھ پیش آئے۔

لوگوں کے حقوق ادا کرنا اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان فراخ دل اور سخی ہو۔ اس لئے کہ جب انسان بخیل ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مال میں الله تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ہے اور نہ ہی الله تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے یعنی غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مند رشتہ داروں کی فکر نہیں کرتا ہے۔

چنانچہ اس سلسلہ میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دورانِ سفر صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو ترغیب دی اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو کہا کہ جن لوگوں کے پاس زائد سواری ہے، وہ ان لوگوں کی مدد کریں، جن کے پاس سواری نہیں ہے۔

حضرت ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ اچانک ایک آدمی اپنی سواری پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ مصیبت وپریشانی کے عالم میں تھا اور اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ کوئی اس کی مدد کرے۔ اس وقت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زائد سواری ہو وہ اس کی مدد کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس شخص کے پاس زائد توشہ ہو وہ اس کی مدد کرے، جس کے پاس توشہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح دیگر مالوں کا تذکرہ کیا اور صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو اس قدر ترغیب دی کہ راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے سوچا کہ زائد مال رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے (بلکہ آدمی کو چاہیئے کہ زائد مال ضرورت مند کو دے دے)۔ (صحیح مسلم)

اس حدیث پاک سے یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ مومن کی حالت یہ ہونی چاہیئے کہ وہ صرف اپنی ذات کی فکر نہ کرے اور صرف اپنی اور اپنے اہل وعیال کی مادی اور دنیوی ترقی کے بارے میں نہ سوچے؛ بلکہ اس کو چاہیئے کہ وہ تمام مسلمانوں کی فکر کرے اور ان کی مدد ونصرت کے مواقع کی تلاش میں رہے۔

لہذا ایسا انسان ہر وقت لوگوں کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے اور تمام لوگوں کے ساتھ شفقت وہم دردی کا معاملہ کرتا ہے (خواہ وہ لوگ اس کے اہل وعیال، پڑوسی، عزیز واقارب اور دوست واحباب ہوں یا عام ضرورت مند لوگ ہوں)۔

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …