سورۂ قریش کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیۡفِ ۚ﴿۲﴾‏‎ ‎فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ ﴿۴﴾‏‎ ‎

قریش کی الفت کی وجہ سے ﴿۱﴾ ان کے گرمی (کے موسم) اور سردی (کے موسم) کے سفر سے الفت کی وجہ سے ﴿۲﴾ لہذا انہیں چاہیئے کہ وہ اس خانۂ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں ﴿۳﴾ جس نے انہیں بھوک کی حالت میں کھانے کو دیا اور خوف سے ان کو محفوظ رکھا ﴿۴﴾

تفسیر

اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں جزیرۂ عرب میں قبائلِ عرب کے درمیان چوری، ڈکیتی، قتل وغارت گری اور آپس میں لڑائی وغیرہ عام باتیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے تھے، تو انہیں ہمہ وقت اس بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کریں یا ان کا سامان نہ لوٹ لیں۔

لیکن قبیلۂ قریش کا معاملہ بالکل مختلف تھا عرب کے سارے قبائل اور باشندے قریش کا بہت زیادہ اکرام واحترام کرتے تھے؛ کیونکہ قریش بیت الله شریف کے خادم اور اس کی دیکھ بھال کرنے والے تھے اور لوگوں کے دلوں میں بیت الله اور بیت الله کی دیکھ بھال کرنے والوں کی بہت زیادہ عزّت اور احترام تھا؛ لہذا وہ قریش کے قافلوں کو بالکل نہیں چھیڑتے تھے؛ لہذا قریش سردی کے موسم میں یمن کی طرف اور گرمی کے موسم میں شام کی طرف چین وسکون کے ساتھ ڈر اور خوف کے بغیر سفر کرتے تھے اور وہاں سے اہل مکہّ کے لئے اناج، غلہ اور تمام ضروریات لے کر واپس آتے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قریش کو جو سلامتی، خوش حالی اور معاشی ترقّی حاصل تھی، اس کا راز یہ تھا کہ ان کو بیت الله شریف کی خدمت کا شرف حاصل تھا۔

 

لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎اٖلٰفِہِمۡ  رِحۡلَۃَ  الشِّتَآءِ  وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿۲﴾‏‎ ‎

قریش کی الفت کی وجہ سے ﴿۱﴾ ان کے گرمی (کے موسم) اور سردی (کے موسم) کے سفر سے الفت کی وجہ سے ﴿۲﴾

اس سورت میں الله تعالیٰ نے قریش کو اپنی دو نعمتیں یاد دلائی ہیں: (۱) ایک امن کی نعمت (۲) دوسری رزق میں وسعت۔ ان دونوں نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد الله تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ ان کی اطاعت وفرماں برداری کریں اور ان کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ نے قریش کو دوسرے لوگوں پر فضیلت بخشی ہے اور انہیں خصوصی شرف عطا کیا ہے۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے الله تعالیٰ نے بنو کنانہ کو منتخب فرمایا اور بنو کنانہ میں سے الله تعالیٰ نے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے الله تعالیٰ نے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے الله تعالیٰ نے مجھے منتخب فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ قریش کو جو خصوصی شرف اور رتبہ ملا ہے وہ الله تعالیٰ کی طرف سے تھا اور یہ خصوصی شرف اور رتبہ الله تعالیٰ کے فیصلہ سے ہوتا ہے؛ لہذا کسی کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے قبائل کے مقابلہ میں قریش کو اتنا عظیم مقام اور مرتبہ کیوں ملا؟ کیونکہ یہ محض الله تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ وہ جس کو دینا چاہتے ہیں دے سکتے ہیں۔

البتہ قریش کی عزّت وعظمت کا ظاہری سبب یہ ہے کہ ان کے اندر کچھ اعلیٰ اخلاق واوصاف تھے جیسے امانت داری، شکر گزاری، لوگوں کی رعایت، ان کے ساتھ حسن سلوک اور بے بس لاچار لوگوں اور مظلوموں کی مدد کرنا وغیرہ۔ اس قسم کے اعلیٰ اخلاق واوصاف قریش کی سرشت اور فطرت میں داخل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انہیں اپنے گھر کعبہ شریف کی خدمت کا شرف عطا فرمایا۔

فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾‏‎ ‎الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ  مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّاٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ ﴿۴﴾‏‎ ‎

لہذا انہیں چاہیئے کہ وہ اس خانۂ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں ﴿۳﴾ جس نے انہیں بھوک کی حالت میں کھانے کو دیا اور خوف سے ان کو محفوظ رکھا ﴿۴﴾

اس سورت میں اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کو اپنی خصوصی رحمت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔

خدا تعالیٰ کی خصوصی رحمت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور ان کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرے۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو دو بڑی نعمتیں عطا فرماتے ہیں۔

پہلی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو حلال رزق عطا کرتے ہیں، بھوک اور فاقہ سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کے مال ودولت میں خوب برکت عطا فرماتے ہیں۔

دوسری نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے جان ومال میں امن وسلامتی عطا فرماتے ہیں۔ قرآن مجید کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس بستی والوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت عطا کی تھی:

وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ

اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک بستی تھی جو امن واطمینان میں رہتے تھے۔ اس کا رزق ہر جگہ سے فراوانی کے ساتھ آ جاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اس بستی کے لوگوں کو امن وسلامتی، مال ودولت وغیرہ سے نوازا تھا؛ لیکن جوں ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں ان کی حالت بدل دی، ان کی خوش حالی کو تنگ دستی سے بدل دی اور سلامتی کو بدامنی سے بدل دی:

فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰهِ فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

پھر اس بستی (بستی والوں) نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناشکری کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا۔

اس آیتِ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قدر سخت بھوک اور ڈر میں مبتلا کر دیا گویا کہ ڈر اور بھوک ان کے کپڑے بنے، جس نے ان کو سر سے پیر تک ڈھانپ لیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا طریقہ اور ان نعمتوں کو زوال سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کریں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔

فائدہ: ابو الحسن قزوینی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص کو کسی دشمن یا اور کسی مصیبت کا خوف ہو اس کے لئے لایلاف قریش کا پڑھنا امان ہے، اس کو امام جزری رحمہ اللہ نے نقل کر کے فرمایا کہ یہ عمل آزمودہ اور مجرّب ہے۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں اس کو نقل کر کے فرمایا کہ مجھے میرے شیخ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ نے خوف وخطر کے وقت اس سورت کے پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا ہر بلا ومصیبت کے دفع کرنے کے لئے اس کی قراءت مجرّب ہے۔ حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بھی بارہا اس کا تجربہ کیا ہے۔ (معارف القرآن)

Check Also

سورہ اخلاص کی تفسیر

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللّٰهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَم يَلِدْ وَلَم يُوْلَد ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن …