بسم الله الرحمن الرحيم
وبائی مرض کے دوران شہادت والی موت
”دینِ اسلام“ انسان پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ دینِ اسلام کی مثا ل اس سرسبز و شاداب باغ کی سی ہے، جس میں انواع و اقسام کے پھل دار درخت، خوشبودار پھول اور مفید پودے ہوتے ہیں۔ جب انسان اس باغ میں قدم رکھتا ہے، تو اس کو کچھ چیزیں سایہ دار اور دھوپ کی تمازت سے بچانے والی، کچھ چیزیں ذائقہ دار، کچھ چیزیں آنکھوں کے لیے فرحت بخش اور کچھ خوشبو دار چیزیں جو روح کے لیے باعثِ سرور وانبساط نظر آتی ہیں؛ مگر اس ہرے بھرے باغ سے انسان اس وقت لطف اندوز ہو سکتا ہے جب کہ وہ اس میں داخل ہو جائے اور اس کی تمام خوبیوں کو کھلے دل سے مشاہدہ کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔
جس طرح سر سبز و شاداب باغ سے نفع حاصل کرنا اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جبکہ انسان اس میں داخل ہو اور اپنی آنکھوں سے اس کے حسن اور خوبی کا دیدار کرے اور فائدہ اٹھائے، اسی طرح اسلام کے محاسن و مکارم اور اس کے لامحدود فضائل و برکات کو وہی شخص حاصل کر سکتا ہے، جو اسلام میں داخل ہوجائے اور اس کی تمام نرالی تعلیمات کواپنے دل سے قبول کرے اور انہیں اپنی زندگی میں اپنائے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً
”اے ایمان والو ! پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ“
اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام کو “سِلْم” (یعنی چین و سکون) سے تعبیر کیا ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی کے ذریعہ سے انسان چین و سکون حاصل کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنی زندگی میں اسلامی نظام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرے اور لوگوں کے سامنے اپنے عمل سے بھی اسلام کی خوبیوں کو ظاہر کرے، تو جس ماحول میں بھی وہ جائےگا وہاں چین و سکون کی فضا بن جائے گی۔ اسی طرح اگر پورے عالم کے سارے مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں اور ہرجگہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی تبلیغ و تشہیر کرنے لگیں، تو پوری دنیا میں امن و سکون قائم ہو جائےگا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار بھی چین و سکون کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اسلام کی خوبی اور محاسن کا مشاہدہ کریں گے۔
اسلام نے ہمیں بہت سارے راستے سکھلائے ہیں جن کے ذریعہ ہم جنّت تک پہنچ سکتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے حقوق (نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج) ادا کرنے کے ذریعہ ہم جنّت میں داخل ہو سکتے ہیں، اسی طرح بندوں کے حقوق (والدین، رشتہ دار، پڑوسی وغیرہ کے حقوق) ادا کرنے کے ذریعہ ہم جنّت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ نیز شریعت نے غریبوں، تنگ دستوں اور یتیموں کے ساتھ شفقت کرنے اور ان کی امدا د اور تعاون کو بھی جنّت تک پہونچنے کا راستہ بتایا ہے۔
در اصل اسلام واحد مذہب ہے جو اس قدر نرالا ہے کہ اس نے ہمیں ایسے راستے بتائے ہیں، جن پر عمل کرکے ہم اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی خود بھلائی اور خیر حاصل کر سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہونچا سکتے ہیں۔
ان میں سے ایک راستہ “شہادت” کا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو آخرت میں بلند مقام و عطا کرنا چاہتے ہیں، تو اس کو شہادت کا درجہ نصیب فرماتے ہیں۔ شہید کو بہت ساری خصوصیتوں سے نوازا جاتا ہے۔ من جملہ ان میں سے یہ ہے کہ اس کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، وہ قبر کے عذاب سے محفوظ ہو جا تا ہے، اس کو آخرت میں اجر عظیم اور بلند مرتبہ عطا کیا جاتا ہے اور اس کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ ستّر (۷۰) افراد کو جنّت میں لے جا ئے۔
شریعت میں اصل شہید وہ ہے جو میدانِ جنگ میں اپنی جان اللہ تعالیٰ کے واسطے قربان کردے؛ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے امّت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوۃ و سلام کو بہت سے ایسے اسباب عطا فرماتے ہیں، جن کے ذریعہ یہ امّت شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو سکتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں شہادت کے بہت سے اسباب کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان طاعون (وبائی مرض) سے مرجائے۔
حدِیث شریف میں وارد ہے کہ “جو شخص طاعون سے مر جائے، وہ شہید ہے۔ اس کے سارے گناہ معاف کر دیئےجاتے ہیں۔” نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ “طاعون کے دوران طبعی موت مرنے والا بھی شہید ہے؛ بشرطیکہ وہ طاعون کی جگہ سے راہِ فرار اختیار نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پرراضی رہے۔” (بخاری شریف)
البتہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں رہے کہ طاعون سے مرنے والے کو شہادت کا مرتبہ صرف اسی صورت میں حاصل ہوگا، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر دل و جان سے راضی رہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ملکِ شام میں ایک انتہائی مہلک و با پھیلی، جس کو “طاعونِ عمواس” کہا جاتا ہے، تو مسلمانوں کے امیر حضرت ابو عبیدہ بن الجرّاح رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: “اے لوگو ! یہ وبا تمہارے لیے رحمت ہے۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا ہے اور تم سے پہلے نیک لوگوں کی وفات کا ذریعہ تھی۔ پھر حضر ت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دُعا فرمائی “اے اللہ ! اُسے اِس وبا میں سے حصّہ عطا فرما۔ اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس وبا کے شکار ہو گئے اور اسی سے ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے جانشیں بنے۔ انہوں نے بھی لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو ! یہ وبا تمہارے لیے رحمت ہے۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا ہے اور تم سے پہلے لوگوں کی وفات کا ذریعہ تھی۔“پھر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے دُعا فرمائی ”اے اللہ ! معاذ کے خاندان کو اس وبا میں سے حصّہ عطافرما۔“
کتابوں میں منقول ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ خطبہ دے کر مسجد سے اپنے گھر پہونچے، تو انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ وہ اس وبا کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا علاج معالجہ خود کیا، یہاں تک کہ وہ وفات پاگئے۔ ابھی ان کی وفات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاتھ پر کچھ پھوڑے پھنسیاں نظر آئیں جن کو طاعون کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ خوشی سے بار بار اپنے ہاتھ کو دیکھتے اور فرماتے: ”میں دنیا کے تمام خزانوں کو اس بیماری کے بدلہ میں لینے کے لیے تیار نہیں ہوں“ اور بالآخر اسی طاعون سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ صحابۂ کرا م رضی اللہ عنہم نے وبا کو کس نگاہ سے دیکھا اور اس کے بارے میں انہوں نے کیا رویّہ اختیار کیا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پربیحد خوش و راضی تھے کیوں کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ وبا اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور آخرت میں رتبۂ شہادت کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پانچ وقت کی فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد بھی جاتے تھے اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔
وبائی مرض یا کسی بھی مصیبت سے دوچار شخص کے لیے چھ قیمتی باتیں :
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے مصیبت زدہ شخص کے لیے چھ زریں احکام بیان فرماتے ہیں :
”(۱) فرمایا کہ حالتِ مصیبت میں ابتلا ہو تو صبر کیا جاوے کہ مومن کی یہی شان ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إن أصابته سراء شكر، فكان خيرا له، وإن أصابته ضراء، صبر فكان خيرا له
”مومن کی عجیب حالت ہے کہ اگر اس کو کوئی خوشی پہنچتی ہے شکر کرتا ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے صبر کرتا ہے تو دونوں حالتوں میں نفع رہا۔“
(۲) فرمایا کہ خدا کی رحمت سے مصیبت میں مایوس نہ ہو؛ بلکہ فضل و کرمِ الٰہی کا امید وار رہے؛ کیونکہ اسباب سے فوق بھی تو کوئی چیز ہے تو یاس کی بات وہ کہے جس کا ایمان تقدیر پر نہ ہو۔ اہلِ دین کا طریقہ تو رضا بقضا ہے۔
(۳) مصیبت کی وجہ سے دوسرے احکامِ شرعیہ میں کوتاہی نہ کرے،خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں (مثلاً: مسجد میں نماز کے لیے جانا اور حسبِ معمول نماز ادا کرنا وغیرہ) یا وہ حقوق العباد سے متعلق ہوں (مثلاً: بیماروں کی عیادت کرنا، ان کی تیمار داری کرنا، میّت کی نمازِ جنازہ اور تجہیز و تکفین وغیرہ میں شرکت کرنا)۔
(۴) خدا سے اس مشکل کے آسان کر دینے کی دعا کرتے رہے اور تدابیر میں مشغول رہے؛ مگر تدبیر کو کارگر نہ سمجھے (اور دعا کا حکم اس لیے ہے کہ تدبیر میں بغیر دعا کے برکت نہیں ہوتی)۔
(۵) استغفار کرتے رہو یعنی اپنے گناہوں سے معافی چاہو۔
(۶) اگر مصیبت ہمارے کسی مسلمان بھائی پر نازل ہو تو اس کو اپنے اوپر نازل شدہ سمجھا جاوے اس کے لیے ویسی ہی تدبیر کی جائے جیسا کہ اگر اپنے اوپر مصیبت نازل ہوتی تو اس وقت خود کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”تم میں سے کوئی کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے“ “
ہم دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ پوری اُمّت کو دین کی صحیح فہم عطا فرمائے اور زندگی کے تمام امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17107