(۱) قضائے حاجت ایسی جگہ کرنا، جہاں لوگوں کی نگاہیں نہ پڑتی ہوں یعنی لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر قضائے حاجت کرنا۔ [1]
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال إن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد البراز انطلق حتى لا يراه أحد (سنن أبي داود، الرقم: 2)[2]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہ تشریف لے جاتے کہ کوئی نہ دیکھ سکے۔
(۲) ایسی جگہ مثال کے طور پر گذر گاہ یا لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ قضائے حاجت نہ کرنا، کیوں کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہونچےگی۔ [3]
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال اتقوا اللعانين قالوا وما اللعانان يا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الذي يتخلى فى طريق الناس أو في ظلهم (صحيح مسلم، الرقم: 269)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو لعنت کے باعث کاموں سے احتراز کرو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: دو لعنت کے باعث کام کونسے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، راستہ میں یا سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرنا۔
(۳) اگر حاجت بشریہ (پیشاب، پاخانہ) کا اتنا شدید تقاضا ہو کہ کھلی جگہ میں جانا پڑے، تو ایسی مناسب جگہ تلاش کرنا، جہاں کوئی نہ دیکھے اور وہ جگہ نرم ہو تاکہ پیشاب کے چھینٹے بدن پر نہ آئے۔ [4]
عن أبي موسى رضي الله عنه قال إني كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم … ثم قال إذا أراد أحدكم أن يبول فليرتد لبوله موضعا (سنن أبي داود، الرقم: 3)[5]
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کرنا چاہے، تو اس کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے۔
(۴) بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے سر ڈھانپنا۔ [6]
عن حبيب بن صالح رحمه الله قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء لبس حذاءه وغطى رأسه (السنن الكبرى للبيهقي، الرقم: 465)[7]
حضرت حبیب ابن صالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت اپنا جوتا پہنتے اور اپنے سر کو ڈھانپ لیتے۔
(۵) بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے بسم اللہ اور مندرجہ ذیل دعا پڑھنا۔ [8]
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثْ[9]
اے اللہ ! میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں نر ومادہ جنات (شیاطین) سے۔
نوٹ: “بسم اللہ” پڑھنے کی وجہ سے انسان کی شرمگاہ شیطان کی نگاہ اور اس کے شر سے محفوظ ہو جاتی ہے۔
عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ستر ما بين أعين الجن وعورات بني آدم إذا دخل أحدهم الخلاء أن يقول بسم الله (سنن الترمذي، الرقم: 606)[10]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت جنات کی نگاہوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان پردہ کرنے والی چیز ”بسم اللہ“ پڑھنا ہے۔
یہ دُعا بھی پڑھے:
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الرِّجْسِ النَّجِسِ الْخَبِيْثِ الْمُخْبِثِ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم [11]
میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں گندگی، ناپاکی، خبیث اور خبائث پر آمادہ کرنے والے ملعون شیطان سے۔
(۶) بیت الخلاء میں داخل ہونے سے قبل ہر اس چیز (مثلا انگوٹھی، چین) کو نکال دینا، جس پر اللہ تبارک وتعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہو یا قرآن کریم کی کوئی آیت درج ہو۔ [12]
عن أنس رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه (سنن الترمذي، الرقم: 1746) [13]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے، تو اپنی انگوٹھی نکال دیتے۔
(۷) بیت الخلاء میں بائیں پیر سے داخل ہونا اور دائیں پیر سے باہر نکلنا۔ [14]
(۸) ازار اور لنگی وغیرہ کھڑے ہو کر نہ اتارنا، بلکہ زمین کے قریب ہو کر اتارنا (جب بیٹھنے لگے، تب کھولنا) تاکہ کم سے کم ستر ظاہر ہو۔ [15]
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أراد الحاجة لا يرفع ثوبه حتى يدنو من الأرض (سنن أبي داود، الرقم: ۱٤)[16]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے، تو اپنا کپڑا (ازار، لنگی وغیرہ) نہیں اٹھاتے، یہاں تک کہ زمین کے قریب ہو جاتے۔
(۹) قضائے حاجت کے دوران چہرہ یا پشت قبلہ کی طرف نہ کرنا۔ [17]
عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهره (صحيح البخاري، الرقم: ۱٤٤)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کرے، تو اپنا چہرہ یا پشت قبلہ کی طرف نہ کرے۔
(۱۰) پیشاب، پاخانہ کے دوران بات چیت نہ کرنا الّا یہ کہ ضرورت شدیدہ ہو۔ [18]
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يخرج اثنان إلى الغائط فيجلسان يتحدثان كاشفين عورتهما فإن الله عز وجل يمقت على ذلك (مجمع الزوائد، الرقم: ۱٠۲۱)[19]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو آدمی قضائے حاجت کے لیے (ایسی جگہ) نہ جائے کہ دونوں قضائے حاجت کے دوران ستر کھولے ہوئے آپس میں بات چیت کرے، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔
(۱۱) بیت الخلاء کے اندر زبان سے کسی قسم کا ذکر نہ کرنا۔ اگر چھینک آئے، تو الحمد اللہ مت کہو۔ اور اگر کوئی سلام کرے، تو جواب مت دو۔ [20]
(۱۲) بیت الخلاء میں نہ کھانا اور نہ پینا۔ [21]
(۱۳)قضائے حاجت کی حالت میں آسمان، شرمگاہ اور پیشاب یا پاخانہ کی طرف نہ دیکھیں۔ [22]
(۱۴) بیت الخلاء میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف نہ کرنا۔ اگر بیت الخلاء چند لوگوں کے درمیان مشترک ہو یا وہ بیت الخلاء سب کے لیے ہو، تو ضرورت سے زیادہ وقت صرف کرنا، دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہوگا۔ See 30
(۱۵) اکڑوں بیٹھ کر قضائے حاجت کرنا۔ کھڑے ہو کر قضائے حاجت کرنا مکروہ ہے۔ [23]
عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثكم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه ما كان يبول إلا قاعدا (سنن الترمذي، الرقم: 12)[24]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جو بھی تم سے یہ بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر قضائے حاجت (پیشاب و غیرہ) کرتے تھے۔ تو اس کی بات پر یقین مت کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی قضائے حاجت فرماتے تھے۔
(۱۶) اس بات کا خوب دھیان رکھنا کہ پیشاب کا چھینٹیں بدن کے کسی حصہ پر نہ پڑیں۔ اس سلسلہ میں غفلت، سخت عذاب قبر کا باعث ہے۔ [25]
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر عذاب القبر من البول (سنن ابن ماجة، الرقم: 348)[26]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا ے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبر میں عام طور پر عذاب پیشاب(کے چھینٹوں سے احتیاط نہ کرنے کی وجہ) سے ہوتا ہے۔
(۱۷) استنجا کے لیے مٹی کے ڈھیلے (یا ٹوائلٹ پیپر) اور پانی کا استعمال کرنا۔ [27]
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال نزلت هذه الآية في أهل قباء فيه رجال يحبون أن يتطهروا قال كانوا يستنجون بالماء فنزلت فيهم هذه الآية (سنن الترمذي، الرقم: 3100)[28]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت کریمہ: فيه رجال يحبون أن يتطهروا باشندگان قبا کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیوں کہ وہ حضرات پانی سے استنجاء کرتے تھے۔
قال علي رضي الله عنه إن من كان قبلكم كانوا يبعرون بعرا وإنكم تثلطون ثلطا فأتبعوا الحجارة بالماء (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: 1645)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کا پاخانہ خشک اور سخت ہوتا تھا (مینگنی کی طرح) اور تم لوگوں کا پاخانہ پتلا ہوتا ہے (خوراک کی وجہ سے) لہذا استنجے میں ڈھیلے کے بعد پانی استعمال کرو (تاکہ اچھی طرح پاکی اور صفائی حاصل ہو جائے)۔
(۱۸) استنجا کے لیے بائیں ہاتھ کا استعمال کرنا۔ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا ناجائز ہے۔ [29]
عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا بال أحدكم فلا يأخذن ذكره بيمينه ولايستنجي بيمينه (صحيح البخاري، الرقم: 154)
حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے (قضائے حاجت کرے) تو وہ اپنا ذکر اپنے دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔
(۱۹) بیت الخلاء سے نکلتے وقت پہلے دایاں پاؤں باہر نکالیں اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے آپ کے جسم سے بے کار چیزیں نکال دیں اور آپ کو صحت و تندرستی عطا کی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیت الخلاء سے نکلتے وقت مندرجہ ذیل دُعا پڑھی جائے۔ [30]
غُفْرَانَكَ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَذْهَبَ عَنِّيْ الْأَذٰى وَعَافَانِيْ[31]
اے اللہ ! میری مغفرت فرما۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جنہوں نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور مجھے عافیت دی۔
یہ دُعا بھی پڑھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَذْهَبَ عَنِّيْ مَا يُؤْذِيْنِيْ وَأَمْسَكَ عَلَيَّ مَا يَنْفَعُنِيْ[32]
سب تعریفیں معبود بر حق کے لیے ہیں، جنہوں نے مجھ سے باعث تکلیف چیز کو نکال دیا اور میرے اندر نفع بخش چیز باقی رکھی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَذَاقَنِيْ لَذَّتَهُ وَأَبْقٰى فِيَّ قُوَّتَهُ وَأَذْهَبَ عَنِّيْ أَذَاهُ[33]
ساری تعریفیں معبود حقیقی کے لیے ہیں، جنہوں نے مجھے اس کی (کھانے کی) لذت عطاکی، میرے جسم میں اس کی طاقت کو باقی رکھا اور مجھ سے اس کی تکلیف کو دور کیا۔
(۲۰) پیشاب کے بعد اتنی دیر انتظار کرنا کہ پیشاب کے قطرے نکلنا بند ہو جائے۔ [34]
(۲۱) بیت الخلاء کو صاف ستھرا رکھنا سگریٹ نوشی وغیرہ کے ذریعہ گندگی نہ پھیلانا۔ بیت الخلاء کو استعمال کرنے کے بعد گندا نہ چھوڑنا؛ بلکہ پانی سے اچھی طرح صاف کر دینا۔ اگر بیت الخلاء چند لوگوں کے زیرِ استعمال ہو، تو صفائی ستھرائی کا اور زیادہ خیال رکھنا تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہونچے۔ [35]
(۲۲) قضائے حاجت کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح مٹی سے رگڑ کر یا صابن سے صاف کرنا؛ تاکہ بدبو زائل ہو جائے۔ [36]
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أتى الخلاء أتيته بماء في تور أو ركوة فاستنجى ثم مسح يده على الأرض ثم أتيته بإناء آخر فتوضأ (سنن أبي داود، الرقم: 45)[37]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء تشریف لے گئے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برتن میں پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے استنجاء کیا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑا (امت کو سکھانے کے لیے کہ کس طرح ہاتھ کو صاف کرنا چاہیئے؛ تاکہ بدبو دور ہو جائے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر کوئی بدبو نہیں تھی) اس کے بعد میں نے پانی کا دوسرا برتن پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا۔
(۲۳) اگر کسی کو شدید مرض لاحق ہو یا وہ ہسپتال میں بھرتی ہو اور بیت الخلاء جانے پر قادر نہ ہو، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بوتل میں پیشاب کرے پھر اس کو پھینک دے۔
عن حكيمة بنت أميمة بنت رقيقة عن أمها رضي الله عنها أنها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان تحت سريره يبول فيه بالليل (سنن أبي داود، الرقم: 24)[38]
حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں (بیماری کے دوران) رات میں پیشاب فرماتے تھے۔
[1] عن عبد الله بن جعفر قال أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم خلفه فأسر إلي حديثا لا أحدث به أحدا من الناس وكان أحب ما استتر به رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته هدف أو حائش نخل قال ابن أسماء في حديثه يعني حائط نخل (صحيح مسلم ، الرقم: 342)
المستنجي لا يكشف عورته عند أحد للإستنجاء فإن كشفها صار فاسقا لأن كشف العورة حرام ومرتكب الحرام فاسق (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ 49)
[2] سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (1/200) فالحديث حسن عنده
عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فأتى النبي صلى الله عليه وسلم حاجته فأبعد في المذهب قال وفي الباب عن عبد الرحمن بن أبي قراد وأبي قتادة وجابر ويحيى بن عبيد عن أبيه وأبي موسى وابن عباس وبلال بن الحارث قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح (سنن الترمذي، الرقم: 20)
[3] ويكره البول والغائط في الماء جاريا كان أو راكدا ويكره على طرف نهر أو بئر أو حوض أو عين أو تحت شجرة مثمرة أو في زرع أو في ظل ينتفع بالجلوس فيه ويكره بجنب المساجد ومصلى العيد وفي المقابر وبين الدواب وفي طرق المسلمين (الفتاوى الهندية 1/50)
عن معاذ بن جبل قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتقوا الملاعن الثلاثة البراز في الموارد وقارعة الطريق والظل (سنن أبي داود، الرقم: 26)
[4] فإذا أراد أن يبول وكانت الأرض صلبة دقها بحجر أو حفر حفيرة حتى لا يترشرش عليه البول (الفتاوى الهندية 1/50)
[5] وقد روى الحاكم مثل هذا فى المستدرك (3/528) وقال هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه وأقره الذهبي فى التلخيص
[6] (ويدخل الخلاء) … (برجله اليسرى) ابتداء مستور الرأس استحبابا تكرمة لليمنى لأنه مستقذر يحضره الشيطان (مراقي الفلاح صـ 51)
[7] وفي إعلاء السنن (عن حبيب بن صالح الخ) قلت فيه دلالة على ندب لبس الحذاء عند دخول المرفق أي الخلاء صونا للرجل عما عسى أن يصيبها وعلى استحباب تغطية الرأس حياء من الله تعالى لأن هذا المحل معد لكشف العورة كذا في العزيزي وشرح الحفني (1/125) قلت فالمراد تغطية الرأس بنحو رداء أو منديل لأنه هو المتعارف عند الحياء لا بنحو القلنسوة فحسب فليتأمل (إعلاء السنن 1/323)
عن ابن المبارك عن يونس عن الزهري قال أخبرني عروة عن أبيه أن أبا بكر الصديق قال وهو يخطب الناس يا معشر المسلمين استحيوا من الله فوالذي نفسي بيده إني لأظل حين أذهب إلى الخلاء في الفضاء مغطيا رأسي استحياء من ربي (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: 1133)
قال الشيخ محمد عوامة: روى البخاري في كتاب المغازي باب قتل أبي رافع بن أبي الحقيق وفيه قول عبد الله بن عَتيك رضي الله عنه يحكي عن نفسه فأقبل حتى دنا من الباب ثم تقنع بثوبه كأنه يقضي حاجة ومعنى تقنع بثوبه ما جاء في الرواية الثانية قال فغطيت رأسي كأني أقضي حاجة وهذا يفيد أنه صنيع معلوم عندهم هو الأصل في هذه الحال (أثر الحديث الشريف صـ 188)
عن سعيد بن عبد الله بن ضرار قال رأيت أنس بن مالك أتى الخلاء ثم خرج وعليه قلنسوة بيضاء مزرورة (مصنف عبد الرزاق، الرقم: 745)
عن أشعث عن أبيه أن أبا موسى خرج من الخلاء وعليه قلنسوة (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: 24859)
وقال السيوطي في الجامع الصغير: ابن سعد عن حبيب بن صالح مرسلا وقال شارحه المناوي في فيض القدير (5/156) ظاهر صنيعه أنه لا علة له غير الإرسال والأمر بخلافه فقد قال الذهبي أبو بكر ضعيف وقال العزيزي في شرحه السراج المنير (3/134) قال الشيخ حديث حسن لغيره
قال إمام الحرمين والغزالي والبغوي وآخرون يستحب أن لايدخل الخلاء مكشوف الرأس قال بعض أصحابنا فإن لم يجد شيئا وضع كمه على رأسه ويستحب أن لايدخل الخلاء حافيا ذكره جماعة منهم أبو العباس بن سريج في كتاب الأقسام وروى البيهقي بإسناده حديثا مرسلا أن النبي صلى الله عليه وسلم (كان إذا دخل الخلاء لبس حذاءه وغطى رأسه) وروى البيهقي أيضا عن عائشة كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء غطى رأسه وإذا أتى أهله غطى رأسه لكنه ضعيف قال البيهقي وروي في تغطية الرأس عند دخول الخلاء عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه وهو صحيح عنه: (قلت) وقد اتفق العلماء على أن الحديث المرسل والضعيف والموقوف يتسامح به في فضائل الأعمال ويعمل بمقتضاه (المجموع شرح المهذب 2/78)
[8] قال العلامة ابن عابدين رحمه الله فإذا وصل إلى الباب يبدأ بالتسمية قبل الدعاء هو الصحيح فيقول بسم الله اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث (رد المحتار 1/345)
(و) لهذا (يستعيذ) أي يعتصم (بالله من الشيطان الرجيم قبل دخوله) وقبل كشف عورته ويقدم تسمية الله تعالى على الاستعاذة لقوله عليه الصلاة والسلام ستر ما بين أعين الجن وعورات بني آدم إذا دخل أحدكم الخلاء أن يقول بسم الله ولقوله عليه السلام إن الحشوش محتضرة فإذا أتي فليقل أعوذ بالله من الخبث والخبائث (مراقي الفلاح صـ 51)
[9] عن أنس رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء قال اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث تابعه ابن عرعرة عن شعبة وعن غندر عن شعبة إذا أتى الخلاء وقال موسى عن حماد إذا دخل وقال سعيد بن زيد حدثنا عبد العزيز إذا أراد أن يدخل (صحيح البخاري، الرقم: 142)
عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل الكنيف قال بسم الله اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: 5)
[10] قال الترمذي: حديث غريب لا نعرفه الا من هذا الوجه وإسناده ليس بذاك القوي
قال المغلطاي (1/94) بعد نقل كلام الترمذي: ولا أدري ما الموجب لذلك لأن جميع من في إسناده غير مطعون عليه بوجه من الوجوه فيما رأيت بل لو قال فيه قائل إن إسناده صحيح لكان مصيبا وبيان ذلك أن محمد بن حميد قال فيه يحيى ليس به بأس كيس وقال جعفر بن أبي عثمان الطيالسي ثقة وسئل عنه الذهلي فقال ألا ترى أني هو ذا أحدث عنه وقيل للصنعاني تحدث عن ابن حميد فقال: وما لي لا أحدث عنه وقد حدث عنه الإمام أحمد وابن معين انتهى ونقل المناوي كلامه في فيض القدير (4/125) وأقره
قال العيني فى عمدة القاري (2/272): وكذا جاء لفظ الكنيف ولفظ المرفق فالأول في حديث علي رضي الله تعالى عنه بسند صحيح وإن كان أبو عيسى: قال إسناده ليس بالقوي ستر ما بين الجن وعورات بني آدم إذا دخل الكنيف أن يقول بسم الله
قال العزيزي في السراج المنير (2/342): إسناد صحيح
وقال الحافظ في نتائج الأفكار (1/197): قلت رواته موثقون وفي كل من محمد بن حميد وشيخه وشيخ شيخه وكذا الحكم الثاني مقال وأشدهم ضعفا محمد بن حميد لكنه لم ينفرد به فقد أخرجه البزار عن يوسف بن موسى عن عبد الرحمن بن الحكم بن بشير عن أبيه به وقال لا يعرف إلا بهذا الإسناد وقد جاء مثله عن أنس
قال الشيخ عوامة في تعليقه على المصنف لابن أبى شيبة (15/351 الرقم: 30354): أما حديث علي فرواه الترمذي (الرقم: 606) وقال حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وإسناده ليس بذاك القوي وابن ماجة (الرقم: 297) وشيخهما فيه محمد بن حميد الرازي وهو ضعيف… إلى أن قال (الشيخ عوامة) نعم بمجموع طرقه يقوى
[11] عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل الخلاء قال اللهم إني أعوذ بك من الرجس النجس الخبيث المخبث الشيطان الرجيم وإذا خرج قال الحمد لله الذي أذاقني لذته وأبقى في قوته وأذهب عني أذاه (عمل اليوم والليلة لابن السني ، الرقم: 25)
قال الحافظ في نتائج الأفكار (1/198): قوله (وروينا عن ابن عمر) أخبرني إمام الأئمة أبو الفضل بن الحسين الحافظ رحمه الله بالسند الماضي غير مرة إلى الطبراني ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة وأحمد بن بشير الطيالسي قال الأول ثنا عبد الحميد بن صالح والثاني ثنا خالد بن مرداس قالا ثنا حبان بن علي عن إسماعيل بن رافع عن دويد وهو ابن عمر ن نافع عن ابن عمر قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء قال اللهم إني أعوذ بك من الرجس النجس الخبيث المخبث الشيطان الرجيم
هذا حديث حسن غريب وحبان بكسر المهملة وتشديد الموحدة فيه ضعف وكذا في شيخه لكن للحديث شواهد
[12] ويكره أن يدخل في الخلاء ومعه خاتم عليه اسم الله تعالى أو شيء من القرآن كذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية 1/50)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله إذا أراد أن يدخل الخلاء ينبغي أن يقوم قبل أن يغلبه الخارج ولا يصحبه شيء عليه اسم معظم (رد المحتار 1/345)
[13] قال في إعلاء السنن: رواه الأربعة وصححه الترمذي كذا في النيل (1/72) وفي العزيزي (3/125) عزاه إلى صحيح ابن حبان ومستدرك الحاكم أيضا ثم قال قال الشيخ حديث صحيح اهـ وفي رواية للبخاري كان نقش الخاتم ثلاثة أسطر محمد سطر ورسول سطر والله سطر كما في المشكوة
قال المؤلف دلالة مجموع أحاديث الباب عليه ظاهرة وحديث أنس رضي الله عنه قد تكلم فيه لكن قال المنذري الصواب عندي تصحيحه فإن رواته ثقات أثبات كما في النيل (ومثله في التلخيص الحبير 1/108 ، الرقم: 140) (إعلاء السنن 1/303)
[14] عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجعل يمينه لأكله وشربه ووضوئه وثيابه وأخذه وعطائه وشماله لما سوى ذلك أخرجه أحمد بإسناد صحيح (العزيزي ۳/۱۵٤) قلت وابن حبان والحاكم أيضا وعن عائشة رضي الله عنها قالت كانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم اليمنى لطهوره وطعامه وكانت يده اليسرى لخلائه وما كان من أذى رواه أحمد وأبو داود والطبراني من حديث إبراهيم عن عائشة وهو منقطع ورواه أبو داود في رواية أخرى موصولا اهـ (التلخيص الحبير ۱/٤۱)
(عن حفصة الخ) قلت معناه أنه صلى الله عليه وسلم كان يجعل يمينه لما لا دناءة فيه من الأعمال وشماله لما سوى ذلك مما لا تكريم فيه قال العيني في العمدة وقال الشيخ محي الدين هذه قاعدة مستمرة في الشرع وهي أن ما كان من باب التكريم والتشريف كلبس الثوب والسراويل والخف ودخول المسجد والسواك والاكتحال وتقليم الأظفار وقص الشارب وترجيل الشعر ونتف الإبط وحلق الرأس والسلام من الصلوة وغسل أعضاء الطهارة والخروج من الخلاء والأكل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الأسود وغير ذلك مما هو في معناه يستحب التيامن فيه وأما ما كان بضده كدخول الخلاء والخروج من المسجد والإمتخاط والإستنجاء ووضع الثوب والسراويل والخف وما أشبه ذلك فيستحب التياسر فيه اهـ فثبت استحباب البداءة باليسرى عند الدخول في الخلاء والبداءة باليمنى وقت الخروج منها فما أخرجه البخاري عن عائشة رضي الله عنها قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره في شأنه كله وفي رواية أبي الوقت (وفي شأنه كله) بالعاطف كما في العمدة للعيني (1/773) عام مخصوص بالأدلة الخارجية منها حديث حفصة هذا وعائشة أيضا عند أحمد والطبراني وأبي داود لما فيه من التصريح بأنه صلى الله عليه وسلم كان يحب التيامن في أعمال والتياسر في الأخرى والله أعلم (إعلاء السنن ۱/۳۲۳)
ثم يدخل باليسرى … ثم يخرج برجله اليمنى (رد المحتار ۱/۳٤۵)
[15] قال العلامة ابن عابدين رحمه الله ولا يكشف قبل أن يدنو إلى القعود (رد المحتار ۱/۳٤۵)
ولا يكشف عورته وهو قائم (الفتاوى الهندية ۱/۵٠)
[16] وحاصل ما قال أبو داود أن ههنا روايتين رواية عن الأعمش عن رجل عن ابن عمر ورواية عبد السلام بن حرب عن الأعمش عن أنس فضعف أبو داود رواية أنس بن مالك لأن هذه الرواية مرسلة فإن الأعمش لم يلق أنس بن مالك ولا أحدا من أصحاب رسول لله صلى الله عليه وسلم ولم يحكم بضعف رواية ابن عمر لأن الأعمش لا يرويها عن ابن عمر بلا واسطة بل يرويها عن رجل عن ابن عمر فالظاهر أن الرجل المبهم عنده ثقة فلهذا لم يحكم بضعفها ولو كان الرجل المبهم عنده مجهولا أو كان غياث بن إبراهيم أحد الكذابين لحكم بضعفه أما الترمذي رحمه الله تعالى فإنه أخرج الروايتين كلتيهما عن أنس وابن عمر مرسلتين فلهذا قال في آخره وكلا الحديثين مرسل فلم تصح عنده الروايتان والله أعلم (بذل المجهود ۱/۱٠)
قال السيوطي في درجات مرقاة الصعود: قال الضياء المقدسي قد سماه (الرجل المبهم) بعضهم القاسم بن محمد ثم قال السيوطي هو بسنن البيهقي كذلك بطريق أحمد بن محمد بن أبى رجاء المصيصي عن وكيع عن الأعمش عن القاسم بن محمد عن ابن عمر رضي الله عنهما اهـ وكذلك قال الحافظ في التقريب وتهذيب التهذيب في باب المبهمات: سليمان الأعمش عن رجل عن ابن عمر في قضاء الحاجة لا يرفع ثوبه حتى يدنو من الأرض قيل هو قاسم بن محمد اهـ
جاء في السنن الكبرى للبيهقي (۱/۹٦) أحمد بن محمد بن أبي رجاء المصيصي شيخ جليل حدثنا وكيع حدثنا الأعمش عن القاسم بن محمد عن ابن عمر قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد الحاجة تنحى ولا يرفع ثيابه حتى يدنو من الأرض
[17] (كره) تحريما (استقبال قبلة واستدبارها ل) لأجل (بول أو غائط) فلو للاستنجاء لم يكره (ولو في بنيان) لإطلاق النهي (فإن جلس مستقبلا لها) غافلا (ثم ذكره انحرف) ندبا لحديث الطبري من جلس يبول قبالة القبلة فذكرها فانحرف عنها إجلالا لها لم يقم من مجلسه حتى يغفر له (إن أمكنه وإلا فلا) بأس (الدر المختار ۱/۳٤۱)
[18] عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رجلا مر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يبول فسلم فلم يرد عليه (صحيح مسلم، الرقم: ۳۷٠)
(ولا يتكلم إلا لضرورة) لأنه يمقت به (مراقي الفلاح صـ ۵۲)
[19] رواه الطبراني في الأوسط ورجاله موثقون (مجمع الزوائد، الرقم: ۱٠۲۱)
[20] ولا يتكلم ولا يذكر الله تعالى ولا يشمت عاطسا ولا يرد السلام ولا يجيب المؤذن فإن عطس يحمد الله بقلبه ولا يحرك لسانه (الفتاوى الهندية ۱/۵٠)
عن جابر بن عبد الله أن رجلا مر على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول فسلم عليه فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رأيتني على مثل هذه الحالة فلا تسلم علي فإنك إن فعلت ذلك لم أرد عليك (سنن ابن ماجة، الرقم: ۳۵۲)
[21] إن هذه الحشوش محتضرة (سنن أبي داود، الرقم: 6)
ولا يطيل القعود على البول والغائط (الفتاوى الهندية 1/50)
[22] ولا ينظر لعورته إلا لحاجة ولا ينظر إلى ما يخرج منه … ولا يرفع بصره إلى السماء (الفتاوى الهندية 1/50)
[23] ويكره أن يبول قائما أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبه من غير عذر فإن كان بعذر فلا بأس به (الفتاوى الهندية 1/50)
[24] قال الترمذي: حديث عائشة أحسن شيئ فى هذا الباب وأصح
قال النووي: رواه أحمد بن حنبل والترمذي والنسائي وآخرون وإسناده جيد والله أعلم وقد روي في النهي عن البول قائما أحاديث لا تثبت ولكن حديث عائشة هذا ثابت (شرح النووي على الصحيح لمسلم 1/133)
[25] والتطهير إما إثبات الطهارة بالمحل أو إزالة النجاسة عنه ويفترض فيما لا يعفى منها وقد ورد أن أول شيء يسأل عنه العبد في قبره الطهارة وأن عامة عذاب القبر من عدم الاعتناء بشأنها والتحرز عن النجاسة خصوصا البول
قال العلامة الطحطاوي رحمه الله (قوله خصوصا البول) فإنه ورد فيه استنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه وورد أن عذاب القبر من أشياء ثلاثة الغيبة والنميمة وعدم الاستنزاه من البول وقوله خصوصا مفعول مطلق والبول مفعول به أي أخص البول بأن عامة عذاب القبر منه خصوصا (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ 152)
[26] قال العلامة البوصيري فى زوائد ابن ماجة (ص81): هذا إسناد صحيح رجاله عن آخرهم محتج بهم فى الصحيحين
[27] (وأركانه) أربعة شخص (مستنج و) شيء (مستنجى به) كماء وحجر (و) نجس (خارج) من أحد السبيلين وكذا لو أصابه من خارج وإن قام من موضعه على المعتمد (ومخرج) دبر أو قبل (بنحو حجر) مما هو عين طاهرة قالعة لا قيمة لها كمدر (منق) لأنه المقصود فيختار الأبلغ والأسلم عن التلويث ولا يتقيد بإقبال وإدبار شتاء وصيفا (وليس العدد) ثلاثا (بمسنون فيه) بل مستحب (والغسل) بالماء إلى أنه يقع في قلبه له طهر ما لم يكن موسوسا فيقدر بثلاث كما مر (بعده) أي الحجر (بلا كشف عورة) عند أحد أما معه فيتركه كما مر فلو كشف له صار فاسقا لا لو كشف لاغتسال أو تغوط كما بحثه ابن الشحنة (سنة) مطلقا به يفتى سراج
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله سنة مطلقا) أي في زماننا وزمان الصحابة لقوله تعالى فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين قيل لما نزلت قال رسول الله يا أهل قباء إن الله أثنى عليكم فماذا تصنعون عند الغائط قالوا نتبع الغائط لأحجار ثم نتبع الأحجار لماء فكان الجمع سنة على الإطلاق في كل زمان وهو الصحيح وعليه الفتوى وقيل ذلك في زماننا لأنهم كانوا يبعرون اهـ إمداد ثم اعلم أن الجمع بين الماء والحجر أفضل ويليه في الفضل الاقتصار على الماء ويليه الاقتصار على الحجر وتحصل السنة بالكل وإن تفاوت الفضل كما أفاده في الإمداد وغيره (رد المحتار ۱/۳۳۸)
فتاوى محمودية ۸/۸۹، ۹۱
[28] وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه فأخرجه أبو داود والترمذي وابن ماجه مرفوعا قال نزلت هذه الآية في أهل قباء فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين قال كانوا يستنجون بالماء فنزلت فيهم هذه الآية وسنده ضعيف وفي الباب أحاديث صحيحة أخرى ومن هنا ظهر أن قول من قال من الأئمة إنه لم يصح في الاستنجاء بالماء حديث ليس بصحيح (تحفة الأحوذي ۱/۹٤)
[29] قال العلامة ابن عابدين رحمه الله ثم يفيض الماء باليمنى على فرجه ويعلي الإناء ويغسل فرجه باليسرى … (رد المحتار ۱/۳٤۵)
ويكره الاستنجاء بالعظم والروث والرجيع والطعام واللحم والزجاج والخزف وورق الشجر والشعر وكذا باليمين هكذا في التبيين (الفتاوي الهندية ۱/۵٠)
(وكره) تحريما (بعظم وطعام وروث) يابس كعذرة يابسة وحجر استنجي به إلا بحرف آخر (وآجر وخزف وزجاج و) شيء محترم (كخرقة ديباج ويمين) ولا عذر بيسراه (الدر المختار ۱/۳٤٠)
[30] (ويخرج من الخلاء برجله اليمنى) لأنها أحق بالتقدم لنعمة الانصراف عن الأذى ومحل الشياطين (ثم يقول) بعد الخروج (الحمد لله الذي أذهب عني الأذى) بخروج الفضلات الممرضة بحبسها (وعافاني) بإبقاء خاصية الغذاء الذي لو أمسك كله أو خرج لكان مظنة الهلاك وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند خروجه غفرانك وهو كناية عن الاعتراف بالقصور عن بلوغ حق شكر نعمة الإطعام وتصريف خاصية الغذاء وتسهيل خروج الأذى لسلامة البدن من الآلام أو عدم الذكر باللسان حال التخلي (مراقي الفلاح صـ ۵۵)
[31] عن عائشة رضي الله عنها قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج من الخلاء قال غفرانك قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب (سنن الترمذي، الرقم: ۷)
قوله (هذا حديث غريب حسن) قال القاضي الشوكاني في نيل الأوطار هذا الحديث أخرجه الخمسة إلا النسائي وصححه الحاكم وأبو حاتم قال في البدر المنير ورواه الدارمي وصححه ابن خزيمة وابن حبان انتهى (تحفة الأحوذي ۱/۵٠)
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج من الخلاء قال الحمد لله الذي أذهب عني الأذى وعافاني (سنن ابن ماجة، الرقم: ۳٠۱)
قال الشيخ محمد عوامة في تعليقه (۱/۲۲۵): رواه ابن السني في عمل اليوم والليلة (۲۵) والطبراني في كتاب الدعاء له (۳۷٠) وقد قال الحافظ فيه في نتائج الأفكار (۱/۱۹۸): حسن غريب وحبان فيه ضعف وكذا فى شيخه لكن للحديث شواهد
[32] قال العلامة ابن عابدين رحمه الله ثم يخرج برجله اليمنى ويقول غفرانك الحمد الله الذي أذهب عني ما يؤذيني وأمسك علي ما ينفعني (رد المحتار ۱/۳٤۵)
عن طاؤس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج أحدكم من الخلاء فليقل الحمد لله الذي أذهب عني ما يؤذيني وأمسك علي ما ينفعني (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: ۱۲)
[33] عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل الخلاء قال اللهم إني أعوذ بك من الرجس النجس الخبيث المخبث الشيطان الرجيم وإذا خرج قال الحمد لله الذي أذاقني لذته وأبقى في قوته وأذهب عني أذاه (عمل اليوم والليلة لابن السني، الرقم: ۲۵)
انظر أيضا ۲٠
[34] عن ابن عباس رضي الله عنهما قال مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان مكة أو المدينة سمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يعذبان وما يعذبان في كبير ثم قال بلى كان أحدهما لا يستبرئ من بوله وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين فوضع على كل قبر منهما كسرة فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا أو إلى أن ييبسا (سنن النسائي، الرقم: 2068)
فروع يجب الاستبراء بمشي أو تنحنح أو نوم على شقه الأيسر ويختلف بطباع الناس
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله ومحله إذا أمن خروج شيء بعده فيندب ذلك مبالغة في الاستبراء أو المراد الاستبراء بخصوص هذه الأشياء من نحو المشي والتنحنح أما نفس الاستبراء حتى يطمئن قلبه بزوال الرشح فهو فرض وهو المراد بالوجوب ولذا قال الشرنبلالي يلزم الرجل الاستبراء حتى يزول أثر البول ويطمئن قلبه وقال عبرت باللزوم لكونه أقوى من الواجب لأن هذا يفوت الجواز لفوته فلا يصح له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال الرشح اهـ (رد المحتار 1/344)
[35] عن أبي مالك الأشعري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الطهور شطر الإيمان (صحيح مسلم، الرقم: 223)
عن صالح بن أبي حسان قال سمعت سعيد بن المسيب يقول إن الله طيب يحب الطيب نظيف يحب النظافة كريم يحب الكرم جواد يحب الجود فنظفوا أراه قال أفنيتكم ولا تشبهوا باليهود قال فذكرت ذلك لمهاجر بن مسمار فقال حدثنيه عامر بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله إلا أنه قال نظفوا أفنيتكم قال أبو عيسى هذا حديث غريب وخالد بن إلياس يضعف (سنن الترمذي، الرقم: 2799)
لهذا الحديث شاهد ضعيف من حديث عائشة في المعجم الأوسط للطبراني والأفراد للدارقطني: نعيم بن مورع عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها مرفوعا بلفظ الإسلام نظيف فتنظفوا فإنه لا يدخل الجنة إلا نظيف قال السخاوي في المقاصد الحسنة (الرقم: 302) ونعيم ضعيف
[36] صحيح البخاري، الرقم: 259
باب مسح اليد بالتراب لتكون أنقى … عن ابن عباس رضي الله عنهما عن ميمونة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم اغتسل من الجنابة فغسل فرجه بيده ثم دلك بها الحائط ثم غسلها ثم توضأ وضوءه للصلاة فلما فرغ من غسله غسل رجليه (صحيح البخاري، الرقم: 260)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله ثم يدلك يده على حائط أو أرض طاهرة ثم يغسلها ثلاثا (رد المحتار 1/346)
[37] سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (1/206) فالحديث حسن عنده
[38] هذا الحديث سكت عنه أبو داود والمنذري (مختصر سنن أبي داود 1/27)
عن حكيمة بنت أميمة عن أمها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان يبول فيه ويضعه تحت سريره فقام فطلبه فلم يجده فسأل فقال أين القدح قالوا شربته برة خادم أم سلمة التي قدمت معها من أرض الحبشة فقال النبي صلى الله عليه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير عبد الله بن أحمد بن حنبل وحكيمة وكلاهما ثقة (مجمع الزوائد، الرقم: 14014)