اسلامی ملک میں نمازِ جنازہ کی امامت کا سب سے زیادہ حق دار
اسلامی ملک میں نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے سب سے زیادہ حق دار مسلم حاکم ہے۔ شریعت نے مسلم حاکم کو نمازِ جنازہ پڑھانے کا پہلا حق دیا ہے، اگر چہ ان سے زیادہ نیک لوگ موجود ہوں۔
اگر حاکم موجود نہ ہوں، تو ان کے نائب کو نمازِ جنازہ کی امامت کا حق حاصل ہوگا۔
اگر حاکم کا نائب بھی موجود نہ ہوں، تو شہر کے قاضی کو امامت کا حق حاصل ہوگا۔
اگر قاضی بھی موجود نہ ہوں، تو مسلمان لشکر کے امیر کو نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق حاصل ہوگا۔
اگر مسلمان لشکر کا امیر بھی موجود نہ ہوں، تو اس کے نائب کو نمازِ جنازہ پڑھانے کا حق حاصل ہوگا۔
یہ بات واضح رہے کہ ان لوگوں کی موجودگی میں کسی اور کے لیے نمازِ جنازہ پڑھانا جائز نہیں ہے؛البتہ اگر یہ لوگ کسی کو نمازِ جنازہ پڑھانے کی اجازت دے تو پھر ایسے آدمی کے لیے امامت کرنا جائز ہوگا۔
اگر اوپر کے مذکورہ لوگ شرعی ترتیب کے مطابق موجود نہ ہوں، تو پھر نمازِ جنازہ کی امامت کا سب سے زیادہ حق دار آدمی میّت کا ولی ہوگا؛ لیکن اگر محلّہ کی مسجد کا امام میّت کے ولی سے زیادہ علم والا ہو، تو مستحب ہے کہ میّت کا ولی محلّہ کی مسجد کے امام کو نمازِ جنازہ پڑھانے کو کہے اور ان کو اپنے سے مقدّم کرے۔ [۱]
غیر اسلامی ملک میں نمازِ جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ حق دار
(۱) غیر اسلامی ملک میں چونکہ کوئی مسلم حاکم اور مسلم قاضی نہیں ہے، تو نمازِ جنازہ کی امامت کا سب سے زیادہ حق دار آدمی میّت کا ولی ہوگا۔
(۲) اگر میّت کا انتقال اس کے علاقہ میں ہو جائے، تو اس کی نمازِ جنازہ ولی پڑھائےگا؛ لیکن اگر محلّہ کی مسجد کا امام میّت کے ولی سے زیادہ علم والا ہو، تو مستحب ہے کہ محلّہ کی مسجد کا امام نمازِ جنازہ پڑھائے (یعنی اس صورت میں مستحب ہے کہ میّت کا ولی محلّہ کی مسجد کے امام کو نمازِ جنازہ پڑھانے میں اپنے سے مقدّم کرے)۔
(۳) اگر میّت کا انتقال اس کے علاقہ میں نہ ہو، تو میّت کے ولی کو نمازِ جنازہ پڑھانے کا حق ہوگا۔ میّت کے رشتہ داروں میں سے وہ آدمی ولی ہوگا جو سب سے زیادہ قریب عصبہ رشتہ دار ہے (عصبات سے مراد باپ کی طرف سے مذکّر رشتے دار ہیں، جو وراثت کے قانون کے اعتبار سے میّت کے وارث بنتے ہیں) یہ بات ذہن میں رہے کہ عصبات کی ترتیب کا لحاظ کیا جائےگا؛ لیکن صرف اتنا فرق ہے کہ میّت کے والد کو نمازِ جنازہ پڑھانے میں اس کے بیٹے پر مقدّم کیا جائےگا یعنی نمازِ جنازہ پڑھانے کا حق پہلے باپ کو حاصل ہوگا، پھر بیٹے کو الّا یہ کہ میّت کا بیٹا اس کے باپ (میّت کے باپ) سے زیادہ علم و فضل والا ہو، تو میّت کا بیٹا نمازِ جنازہ پڑھائےگا۔ [۱]
اگر نمازِ جنازہ ولی کی اجازت کے بغیر ادا کی گئی ہو، تو ولی کو نمازِ جنازہ دوبارہ پڑھانے کا حق حاصل ہوگا۔ اور اگر میّت کی تدفین بھی ہو چکی ہو، تو ولی کو یہ اختیار ہے کہ وہ قبرستان میں نمازِ جنازہ دوبارہ پڑھائے؛ لیکن اس کو یہ اختیار اس وقت تک حاصل ہوگا، جب تک کہ میّت کی لاش صحیح سالم ہو یعنی گلی سڑی نہ ہو۔ [۲]
نوٹ : میّت کے جسم کے گلنے سڑنے میں اکثر فقہائے کرام نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے کہ اس میں کوئی مُدّت مُتعیّن نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہر علاقہ کے موسم اور زمین کے اعتبار سے مختلف ہوگی۔ [۳]
اگر ولی نے دوسرے رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں نمازِ جنازہ ادا کر لی، تو دوسرے رشتہ داروں کو نمازِ جنازہ کے اعادہ کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ [۴]
دار الاسلام میں اگر میّت کا ولی نمازِ جنازہ پڑھا لے مسلم حاکم کی غیر موجودگی میں، تو مسلم حاکم کو نمازِ جنازہ کے اعادہ کا حق حاصل نہیں ہوگا؛ کیونکہ نمازِ جنازہ کی امامت کا اصل حق میّت کے ولی کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر میّت کا ولی مسلم حاکم کی موجودگی میں بھی نمازِ جنازہ ادا کرے، تو مسلم حاکم نمازِ جنازہ کا اعادہ نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ میّت کا ولی حاکم کو نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے متعیّن نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ [۵]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=2224
[۱](ويقدم في الصلاة عليه السلطان) إن حضر (أو نائبه) وهو أمير المصر (ثم القاضي) ثم صاحب الشرط ثم خليفته ثم خليفة القاضي (ثم إمام الحي) فيه إيهام وذلك أن تقديم الولاة واجب وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي وإلا فالولي أولى كما في المجتبى وشرح المجمع للمصنف وفي الدراية إمام المسجد الجامع أولى من إمام الحي أي مسجد محلته نهر (ثم الولي) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب فيقدم على الابن اتفاقا إلا أن يكون عالما والأب جاهلا فالابن أولى فإن لم يكن ولي فالزوج ثم الجيران … (الدر المختار ٢/٢١٩)
[۲] (فإن صلى غيره) أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به (أعادها) هو (إن شاء) لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها (ولا) يعيد (معه) أي مع من له حق التقدم
قال العلامة الطحطاوي – رحمه الله – : قوله (أعادها) ولو على قبره كذا في الدر قوله (هو) إنما ذكر الضمير لأنه لو حذفه لتوهم عود الضمير في أعادها على الغير قوله (إن شاء) أي فالإعادة ليست بواجبة قوله (وإن تأدى الفرض بها) أي بصلاة غيره أشار به وبالتخيير إلى ضعف ما في التقويم من أنه لو صلى غير ذي الحق كانت الصلاة باقية على ذي الحق والي ردما في الإتقان من أن الأمر موقوف إن أعاد ذو الحق تبين أن الفرض ما صلى وإلا سقط بالأولى (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٥٩١)
[۳] (وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحسانا (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير هو الأصح وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه
قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: (قوله: وأهيل عليه التراب) فإن لم يهل أخرج وصلي عليه كما قدمناه بحر قوله (أو بها بلا غسل) هذا رواية ابن سماعه والصحيح أنه لا يصلى على قبره في هذه الحالة لأنها بلا غسل غير مشروعة كذا في غاية البيان لكن في السراج وغيره قيل لا يصلى على قبره وقال الكرخي يصلى وهو الاستحسان لأن الأولى لم يعتد بها لترك الشرط مع الإمكان والآن زال الإمكان فسقطت فرضية الغسل وهذا يقتضي ترجيح الإطلاق وهو الأولى نهر تنبيه ينبغي أن يكون في حكم من دفن بلا صلاة من تردى في نحو بئر أو وقع عليه بنيان ولم يمكن إخراجه بخلاف ما لو غرق في بحر لعدم تحقق وجوده أمام المصلي تأمل قوله (هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حرا وبردا والميت سمنا وهزالا والأمكنة بحر وقيل يقدر بثلاثة أيام وقيل عشرة وقيل شهر ط عن الحموي (رد المحتار٢/٢٢٤)
[٤] ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء أخر بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا كذا في الجوهرة النيرة (الفتاوى الهندية ١/١٦٤)
[۵] (وإن صلى هو) أي الولي (بحق) بأن لم يحضر من يقدم عليه (لا يصلي غيره بعده) وإن حضر من له التقدم لكونها بحق.