اگر کوئی شخص آسمانی بجلی کے گرنے کی وجہ سے یا آگ میں جل کر فوت ہو جائے اور اس کا جسم صحیح سالم ہو (اعضاء بکھرے نہ ہوں)، تو اس کو حسبِ معمول غسل دیا جائےگا، کفن پہنایا جائےگا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی جائےگی۔ البتہ اگر جسم بکھر گیا ہو (جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہوں) تو بس اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائےگا۔ [۱]
اگر میّت کا جسم ٹھیک ہو اور بکھڑا نہ ہو، البتہ یہ اندیشہ ہو کہ اگر جسم کو ہلایا جائےگا، تو وہ بکھر جائےگا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے تو ایسی صورت میں بس اتنا کافی ہوگا کہ جسم پر پانی بہا دیا جائے۔ اس کو عام طریقے کے مطابق غسل نہیں دیا جائےگا۔ [۲]
اگر کسی آدمی کا جسم جل گیا ہو اور اس کا اکثر حصّہ راکھ میں تبدیل ہوگیا ہو، تو جسم کے باقی بچے ہوئے حصّے کو راکھ سمیت کپڑے میں رکھ کر دفن کر دیا جائے۔ اس کو نہ غسل دیا جائےگا نہ ہی کفن پہنایا جائےگا اور نہ ہی اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائےگی۔ البتہ اگر جسم کا صرف کچھ حصّہ جلا ہو اور زیادہ تر حصّہ ٹھیک ہو، تو اس کو حسبِ معمول غسل دیا جائےگا، کفن پہنایا جائےگا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی جائےگی۔ [۳]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=2814
[۱] ويصلى عليه (ما لم يتفسخ)
قال العلامة الطحطاوي – رحمه الله -: قوله: (ما لم يتفسخ) أي تفرق أعضاؤه فإن تفسخ لا يصلى عليه مطلقا لأنها شرعت على البدن ولا وجود له مع التفسخ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٥٩٢)
[۲] (وجد رأس آدمي) أو أحد شقيه (لا يغسل ولا يصلى عليه) بل يدفن إلا أن يوجد أكثر من نصفه ولو بلا رأس (الدر المختار ٢/١٩٩)
ولو كان الميت متفسخا يتعذر مسحه كفى صب الماء عليه كذا في التتارخانية ناقلا عن العتابية (الفتاوى الهندية ١/١٥٨)
والمنتفخ الذي تعذر مسه يصب عليه الماء (مراقي الفلاح صـ ٥٦٩)
[۲] (وجد رأس آدمي) أو أحد شقيه (لا يغسل ولا يصلى عليه) بل يدفن إلا أن يوجد أكثر من نصفه ولو بلا رأس (الدر المختار ٢/١٩٩)
ولو وجد أكثر البدن أو نصفه مع الرأس يغسل ويكفن ويصلى عليه كذا في المضمرات وإذا صلي على الأكثر لم يصل على الباقي إذا وجد كذا في الإيضاح وإن وجد نصفه من غير الرأس أو وجد نصفه مشقوقا طولا فإنه لا يغسل ولا يصلى عليه ويلف في خرقة ويدفن فيها كذا في المضمرات (الفتاوى الهندية ١/١٥٩)