(۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیائے کرام علیہم السلام پر متعدد آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی بعض آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے متعلق قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں خبر دی گئی ہے اور بعض کے متعلق ہمیں خبر نہیں دی گئی ہے۔ [۱]
(۲) ہم ان تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل فرمایا یعنی ان کی اصلی صورت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو نازل فرمایا تھا۔ ہم ان کتابوں اور صحیفوں کے تحریف شدہ اور گھڑی ہوئی باتوں پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، جن کو لوگوں نے بدل ڈالا ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف غلط نسبت کر دی ہیں۔ [۲]
(۳) اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ مشہور آسمانی کتابیں چار ہیں:
(۱) تورات حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل کی گئی
(۲) انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل کی گئی
(۳) زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی
(۴) قرآن مجید حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ [۳]
(۴) آسمانی صحیفہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو نازل کیا گیا تھا۔
تورات حضرت موسٰی علیہ السلام پر چھ (۶) رمضان المبارک کو نازل کی گئی تھی۔
انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام پر تیرہ (۱۳) رمضان المبارک کو نازل کی گئی تھی۔
زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر بارہ (۱۲) یا اٹھارہ (۱۸) رمضان المبارک کو نازل کی گئی تھی۔
اور قرآن مجید چوبیس (۲۴) رمضان المبارک کو لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پر نازل کیا گیا تھا۔ پھر پہلے آسمان سے تیئیس (۲۳) سالوں میں پورا قرآن مجید حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر رفتہ رفتہ حسبِ ضرورت نازل کیا گیا تھا۔ [۴]
(۵) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب ہے اور یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد تمام آسمانی کتابیں منسوخ ہو گئیں۔ [۵]
(۶) اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآنِ کریم کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری لی ہے؛ لہذا قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تبدیلی اور تحریف ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک دوسری آسمانی کتابوں کی بات ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لوگوں کے سپرد کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتابیں ردّ و بدل اور تغییر و تحریف سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ [۶]
(۷) قرآن مجید رفتہ رفتہ تیئیس (۲۳) سالوں میں نازل ہوا تھا۔ قرآن مجید کی مختلف آیتیں متفرق اوقات میں نازل ہوئی تھیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتائیں کہ کون سی آیت کس سورت میں اور کس ترتیب سے لکھی جائے۔ [۷]
[١] ونؤمن بالملائكة والنبيين والكتب المنزلة على المرسلين ونشهد أنهم كانوا على الحق المبين (العقيدة الطحاوية صـ ۲۹)
(ولله كتب أنزلها على أنبيائه وبين فيها أمره ونهيه ووعده ووعيده) وكلها كلام الله تعالى (شرح العقائد النسفية صـ ۱٦۸)
[٢] قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖوَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ (سورة البقرة : ١٣٦)
[۳] وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ (سورة البقرة: ٨٧)
(ولقد آتينا موسى الكتاب) التوراة أتاه جملة (تفسير النسفي ١/١٠٧)
وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (سورة المائدة: ٤٦)
اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ عِیۡسٰی وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡنُسَ وَ ہٰرُوۡنَ وَ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا (سورة النساء: ١٦٣)
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ (سورة الحجر: ٨٧)
[٤] عن واثلة بن الأسقع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أنزلت صحف إبراهيم عليه السلام في أول ليلة من رمضان وأنزلت التوراة لست مضين من رمضان والإنجيل لثلاث عشرة خلت من رمضان وأنزل الفرقان لأربع وعشرين خلت من رمضان (مسند أحمد، الرقم: ١٦٩٨٤، قال الهيثمي في مجمع الزوائد (۱/۱۹۷): رواه أحمد والطبراني في الكبير والأوسط وفيه عمران بن داود القطان ضعفه يحيى ووثقه ابن حبان وقال أحمد أرجو أن يكون صالح الحديث وبقية رجاله ثقات)
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال أنزل الله تبارك وتعالى صحف إبراهيم في أول ليلة من رمضان وأنزلت التوراة على موسى عليه السلام لست خلون من رمضان وأنزل الزبور على داود عليه السلام لاثني عشرة خلت من رمضان وأنزل القرآن على محمد صلى الله عليه وسلم في أربع وعشرين خلت من رمضان. رواه أبو يعلى الموصلي عن سفيان بن وكيع وهو ضعيف وله شاهد من حديث واثلة بن الأسقع رواه أحمد بن حنبل (إتحاف الخيرة المهرة، الرقم: ٢٢٠١)
عن واثلة بن الأسقع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نزلت صحف إبراهيم أول ليلة من شهر رمضان وأنزلت التوراة لست مضين من رمضان وأنزل الإنجيل لثلاث عشرة مضت من رمضان وأنزل الزبور لثمان عشرة خلت من رمضان وأنزل القرآن لأربع وعشرين خلت من رمضان (المعجم الأوسط للطبراني الرقم: ٣٧٤٠، قال المناوي في التيسير (١/٣٨٠): ورجاله ثقات)
[۵] ثم الكتب قد نسخت بالقران تلاوتها وكتابتها وبعض أحكامها ( شرح العقائد النسفية صــ ۱٦۸)
[٦] اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (سورة الحجر: ٩)
[۷](وقرآنا فرقناه) أما قراءة من قرأ بالتخفيف فمعناه فصلناه من اللوح المحفوظ إلى بيت العزة من السماء الدنيا ثم نزل مفرقا منجما على الوقائع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاث وعشرين سنة قاله عكرمة عن ابن عباس (تفسير ابن كثير ۵/۱۲۷)