
عن عبد الرحمن بن مريح الخولاني قال: سمعت أبا قيس مولى عمرو بن العاص يقول: سمعت عبد الله بن عمرو يقول: من صلى على رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة صلى الله عليه وملائكته سبعين صلاة فليقل عبد من ذلك أو ليكثر (مسند أحمد، الرقم: 6605، وإسناده حسن وحكمه الرفع إذ لا مجال للإجتهاد فيه كما في القول البديع صـ 237)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے اس پر ستّر (۷۰) درود (رحمتیں) بھیجتے ہیں؛ لہذا جو چاہے، زیادہ درود پڑھے اور جو چاہے، کم درود پڑھے (یعنی جو شخص زیادہ ثواب کے حصول کا متمنّی ہے، اس کو بکثرت درود شریف پڑھنا چاہیئے)۔
روزانہ ایک ہزار بار درود شریف پڑھنا
ابو الحسن بغدادی دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو عبد اللہ بن حامد کو مرنے کے بعد کئی دفعہ خواب میں دیکھا، ان سے پوچھا کہ کیا گزری؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت فرما دی اور مجھ پر رحم فرمایا۔
انہوں نے ان سے یہ پوچھا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتاؤ جس سے میں سیدھا جنّت میں داخل ہو جاؤں!
انہوں نے بتایا کہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھ اور ہر رکعت میں ایک ہزار مرتبہ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدْ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت مشکل عمل ہے، تو انہوں نے کہا کہ پھر تو ہر شب میں ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا کر۔
دارمی کہتے ہیں کہ یہ میں نے اپنا معمول بنا لیا۔ (فضائل درود،ص ۱۵۷، القول البدیع)
اُحد کی لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری
احد کی لڑائی میں مسلمان چاروں طرف سے کفار کے بیچ میں آگئے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ (یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم) شہید بھی ہوئے اور کچھ بھاگے بھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کفّار کے ایک جتّھے کے بیچ میں آ گئے اور کفّار نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اس خبر سے بہت پریشان حال تھے اور اسی وجہ سے بہت سے بھاگے بھی اور اِدھر اُدھر متفرق ہو گئے۔
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب کفّار نے مسلمانوں کو گھیر لیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میری نظر سے اوجھل ہو گئے، تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل زندوں میں تلاش کیا؛ نہ پایا، پھر شہداء میں جا کر تلاش کیا، وہاں بھی نہ پایا، تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی سے بھاگ جائیں، بظاہر حق تعالیٰ شانہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناراض ہوئے؛ اس لیے اپنے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اس لیے اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ میں بھی تلوار لے کر کافروں کے جتھے میں گھس جاؤں؛ یہاں تک کہ مارا جاؤں۔
میں نے تلوار لے کر حملہ کیا؛ یہاں تک کہ کفّار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میری نگاہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ گئی، تو بے حد مسرّت ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ جل شانہ نے ملائکہ کے ذریعے سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھڑا ہوا کہ ایک جماعت کی جماعتِ کفّار کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کے لیے آئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! ان کو روکو۔ میں نے تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا اور اُن کے منھ پھیر دیے اور بعضوں کو قتل کر دیا۔
اس کے بعد پھر ایک اور جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کی نیّت سے بڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ انہوں نے پھر تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس جواں مردی اور مدد کی تعریف کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه منى وأنا منه
بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں یعنی کمالِ اتحاد کی طرف اشارہ فرمایا (یعنی ہم دونوں ایک ہی خاندان سے ہیں اور ہماری بھائی چارگی کا تعلق بہت ہی قریب ہے)۔
تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:
وأنا منكما
اور میں تم دونوں سے ہوں۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، الرقم: ۵۴۶، تاریخ الطبری ۲/۵۱۴، فضائل اعمال، ص ۱۰۲-۱۰۳)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت دیکھو! جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دشمن کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا، تو انہوں نے دشمن کی صفوں میں جا کر اپنے آپ کو ڈال دیا اور ایسی بہادری کے ساتھ تنہا انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا؛ تاکہ دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کی بے پناہ محبت ظاہر ہوتی ہے۔
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ


 Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી 
				