اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا حصول

عن ابن عمر وأبي هريرة رضي الله عنهم قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صلوا علي صلى الله عليكم (الكامل لابن عدي، الرقم: ۱۱٠۸٦، وإسناده ضعيف كما في التيسير للمناوي ۲/۹۳)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر درود بھیجو، اللہ تعالیٰ تم پر درود (رحمتیں) بھیجیں گے۔

روزانہ درود شریف لکھنے والے کا واقعہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریّا رحمہ اللہ ایک مرتبہ فرمایا:

ایک معتمد دوست نے راقم سے ایک خوشنویسِ لکھنؤ کی حکایت بیان کی، ان کی عادت تھی کہ جب صبح کے وقت کتابت شروع کرتے، تو اوّل ایک بار درود شریف ایک بیاض پر جو اسی غرض سے بنائی تھی لِکھ لیتے، اس کے بعد کام شروع کرتے۔

جب ان کے انتقال کا وقت آیا، تو غلبۂ فکرِ آخرت سے خوف زدہ ہو کر کہنے لگے کہ دیکھئے، وہاں جا کر کیا ہوتا ہے؟ ایک مجذوب آ نکلے اور کہنے لگے: بابا کیوں گھبراتا ہے، وہ بیاض سرکار صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہے اور اُس پر صاد بن رہے ہیں (قبول ہو رہے ہیں)۔ (فضائل درود،ص۱۵۳)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہونے کی تمنّا

حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے بیٹے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما کو حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر بھیجا۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے فرمایا:

تم عائشہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام پیش کیا ہے۔ یہ مت کہو کہ امیر المؤمنین نے سلام پیش کیا ہے؛ کیوں کہ میں اب امیر المؤمنین نہیں ہوں (اس لیے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں)۔

پھر ان سے عرض کرو کہ عمر بن الخطّاب آپ کے مکان میں اپنے دونوں ساتھیوں (حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی الله عنہ) کے ساتھ مدفون ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔

حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما اپنے والد ماجد کے حکم کے مطابق حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔

وہاں جا کر انہوں نے دیکھا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا رو رہی ہیں (اس عظیم سانحے پر اور اس بڑے نقصان پر جو امت کو حضرت عمر رضی الله عنہ کی وفات کے بعد ہوگا)۔

حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے کہا کہ عمر نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ درخواست کی ہے کہ آپ اپنے مکان میں ان کو ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دیں۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے حضرت عمر کی درخواست سن کر فرمایا:

میری تمنا تھی کہ میں اس مکان میں مدفون ہو جاؤں (حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور میرے والد حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے ساتھ)؛ مگر آج میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔

جب حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما واپس آئے اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے عرض کیا کہ عائشہ نے آپ کو ان کے مکان میں آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دی ہیں، تو حضرت عمر رضی الله عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: یہ میری پوری زندگی کی فکر تھی کہ میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہو جاؤں۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے فرمایا:

میری وفات کے بعد جب تم مجھے تدفین کے لیے لے جاؤ، تو دوبارہ عائشہ سے میری طرف سے اجازت لے لو۔ تم ان سے کہو کہ عمر آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ مدفون ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔

اگر وہ اجازت دیں، تو مجھے وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں، تو مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ (صحیح البخاری، الرقم: ۳۷۰۰)

يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ

Source: https://ihyaauddeen.co.za/?p=15977 , http://ihyaauddeen.co.za/?p=15716

Check Also

ایک درود کے بدلہ ستّر انعامات

عن عبد الرحمن بن مريح الخولاني قال سمعت أبا قيس مولى عمرو بن العاصي يقول: سمعت عبد الله بن عمرو يقول: من صلى على رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة صلى الله عليه وملائكته سبعين صلاة فليقل عبد من ذلك أو ليكثر...