اذان دینے کے وقت مندرجہ ذیل سنتوں اور آداب کا لحاظ رکھا جائے:
(۱) اگر بہت سی قضا نمازیں ایک ساتھ ادا کی جائیں، تو ہر نماز کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ اذان دینا جائز ہے اور اگر تمام قضا نمازوں کے لیے ایک ہی اذان دی جائے، تو بھی کافی ہے۔ تاہم ہر نماز کے لیے اقامت علیٰحدہ ہونی چاہیئے۔ [۱]
عن أبي عبيدة بن عبد الله بن مسعود قال: قال عبد الله: إن المشركين شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات يوم الخندق حتى ذهب من الليل ما شاء الله فأمر بلالا فأذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ثم أقام فصلى المغرب ثم أقام فصلى العشاء (سنن الترمذي رقم ١٧٩)[۲]
حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ (میرے والد) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوۂ خندق میں مشرکین (کے ساتھ قتال) کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں فوت ہو گئیں، یہاں تک کہ رات کا اتنا حصّہ گذر گیا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز ادا کی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کی۔
نوٹ:- عشاء کی نماز قضاء نہیں ہوئی ؛ لیکن تاخیر کے ساتھ ادا کی گئی۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?cat=379
[۱] (و) يسن أن (يؤذن ويقيم لفائتة) رافعا صوته لو بجماعة أو صحراء لا ببيته منفردا (وكذا) يسنان (لأولى الفوائت) لا لفاسدة (ويخير فيه للباقي) لو في مجلس وفعله أولى، ويقيم للكل
قال الشامي : (قوله: وفعله أولى) لأنه اختلفت الروايات في قضائه صلى الله عليه وسلم ما فاته يوم الخندق، ففي بعضها أنه أمر بلالا فأذن وأقام للكل، وفي بعضها أنه اقتصر على الإقامة فيما بعد الأولى، فالأخذ بالزيادة أولى خصوصا في باب العبادات، وتمامه في الإمداد (قوله: ويقيم للكل) أي لا يخير في الإقامة للباقي، بل يكره تركها كما في نور الإيضاح. (رد المحتار ۱/۳۹٠-۳۹۱)
[۲] قال أبو عيسى: وفي الباب عن أبي سعيد وجابر حديث عبد الله ليس بإسناده بأس إلا أن أبا عبيدة لم يسمع من عبد الله
قال الحافظ في الفتح (۲/۸۲) : وفي قوله أربع تجوز لأن العشاء لم تكن فاتت