نمازِ جنازہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ حسبِ ذیل ہے:
(۱) میّت کو امام کے سامنے اس طرح رکھا جائے کہ اس کا سر امام کے دائیں جانب ہو اور اس کا پیر امام کے بائیں جانب ہو اسی طرح میت کو اس طرح رکھا جائے کہ اس کے جسم کا دایاں حصّہ قبلہ کی طرف ہو۔ [۲]
(۲) امام میّت کے سینے کے مقابل کھڑا ہو۔ [۳]
(۳) نمازِ جنازہ کی نیّت کی جائے۔ نیّت اس طرح کی جائے کہ “میں نمازِ جنازہ ادا کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے اور میت کے حق میں دعا کرنے کے لیے۔” [۴]
(۴) دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر تکبیر کہی جائے یعنی “اللہ اکبر” کہے۔[۵]
(۵) عام نمازوں کی طرح دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لیا جائے۔ [۶]
(۶) پھر ثنا پڑھی جائے یعنیسُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالى جَدُّكَ وَجَلَّ ثَنَائُكَ وَلَا إِلهَ غَيْرُكَ۔ [۷]
(۷) دوسری مرتبہ تکبیر کہی جائے؛ لیکن ہاتھوں کو نہ اٹھایا جائے۔
(۸) پھر درود پڑھا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز والا درود(درود ابراہیمی) پڑھا جائے۔ [۸]
(۹) تیسری مرتبہ تکبیر کہی جائے؛ لیکن ہاتھوں کو نہ اٹھائے جائے۔
(۱۰) پھر میّت کے لیے دعا کی جائے۔ اگر میّت بالغ ہو(خواہ مرد ہو یا عورت)، تو اس کے لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھی جائے۔
أللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا وَذَكَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَاَحْيِهِ عَلَى الْاِسْلاَمِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْاِيْمَانِ (جامع الترمذي رقم ۱٠۲٤)
اے اللہ ! ہمارے زندوں، مردوں، حاضرین، غائبین، چھوٹوں، بڑوں، مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! آپ ہم میں سے جس کو زندہ رکھیں، اس کو اسلام پر زندہ رکھیں اور جس کو موت دیں، اس کو ایمان پر موت دیں۔
بعض احادیث میں مندرجہ ذیل دعا آئی ہے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مَدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ (الحصن الحصين ص۱۸۳)
الہیٰ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے نجات دے، اور اس کی خطا معاف فرما، اور اس کی اچھی مہمانی کر، اور اس کا ٹھکانہ عمدہ بنا، اور اس کی قبر کشادہ کر اور اسے پانی، برف اور اولے سے دھو کر خطاؤں سے اس طرح پاک و صاف کر دے، جس طرح کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اور اس کو دنیا کے گھر سے بہتر گھر اور اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور دنیا کی بیوی سے اچھی بیو ی عطا فرما، اور اسے بہشت میں داخل کر اور عذابِ قبر اور عذابِ دوزخ سے بچا لے۔
ان دو دعاؤں کے علاوہ دوسری دعائیں بھی حدیثِ پاک میں منقول ہیں۔ اور فقہانے بھی ان دعاؤں کو فقہ کی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ان دعاؤں میں سے کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں۔ [۹]
(۱۱) ہاتھوں کو اٹھائے بغیر چوتھی مرتبہ تکبیر کہی جائے اور عام نمازوں کی طرح دائیں اوربائیں طرف سلام پھیرا جائے۔[۱۰]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1844
[۲] ( ووضعه ) وكونه هو أو أكثره ( أمام المصلي ) وكونه للقبلة … وصحت لو وضعوا الرأس موضع الرجلين وأساءوا إن تعمدوا قال الشامي : (قوله وصحت لو وضعوا إلخ) كذا في البدائع، وفسره في شرح المنية معزيا للتتارخانية بأن وضعوا رأسه مما يلي يسار الإمام اهـ فأفاد أن السنة وضع رأسه مما يلي يمين الإمام كما هو المعروف الآن، ولهذا علل في البدائع للإساءة بقوله لتغييرهم السنة المتوارثة، ويوافقه قول الحاوي القدسي: يوضع رأسه مما يلي المستقبل، فما في حاشية الرحمتي من خلاف هذا فيه نظر فراجعه (رد المحتار ۲/۲٠۸)
[۳] ( وسننها أربع ) الأولى ( قيام الإمام بحذاء ) صدر ( الميت ذكرا كان ) الميت ( أو أنثى ) لأنه موضع القلب ونور الإيمان (مراقي الفلاح ص۵۸۳)
[٤] وفي صلاة الجنازة ينوي الصلاة لله تعالى والدعاء للميت (الفتاوى الهندية ۱/٦٦)
[۵] (وهي أربع تكبيرات ) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة ( يرفع يديه في الأولى فقط ) (الدر المختار ۲/۲۱۲)
[٦] ( ووضع ) الرجل ( يمينه على يساره تحت سرته آخذا رسغها بخنصره وإبهامه ) وهو المختار (الدر المختار ۱/٤۸٦) قال الشامي : ( قوله بخنصره وإبهامه ) أي يحلق الخنصر والإبهام على الرسغ ويبسط الأصابع الثلاث كما في شرح المنية ونحوه في البحر والنهر والمعراج والكفاية والفتح والسراج وغيرها وقال في البدائع ويحلق إبهامه وخنصره وبنصره ويضع الوسطى والمسبحة على معصمه وتبعه في الحلية ومثله في شرح الشيخ إسماعيل عن المجتبى (رد المحتار ۱/٤۸۷)
[۷] (و يثني بعدها) وهو سبحانك اللهم و بحمدك قال الشامي : قوله ( وهو سبحانك اللهم وبحمدك ) كذا فسر به الثناء في شرح درر البحار وغيره وقال في العناية إنه مراد صاحب الهداية لأنه المعهود من الثناء وذكر في النهر أن هذا رواية الحسن عن الإمام والذي في المبسوط عن ظاهر الرواية أنه يحمد الله اهـ أقول مقتضى ظاهر الرواية حصول السنة بأي صيغة من صيغ الحمد فيشمل الثناء المذكور لاشتماله على الحمد (رد المحتار ۲/۲۱۲)
[۸] (و يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية) لأن تقديمها سنة الدعاء قال الشامي : قوله ( كما في التشهد ) أي المراد الصلاة الإبراهيمية التي يأتي بها المصلي في قعدة التشهد قوله ( لأن تقديمها ) أي تقديم الصلاة على الدعاء سنة كما أن تقديم الثناء عليهما سنة أيضا (رد المحتار ۲/۲۱۲)
[۹] (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى قال الشامي : قوله ( والمأثور أولى ) ومن المأثور اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما ينقي الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وأدخله الجنة وأعذه من عذاب القبر وعذاب النار منح وثم أدعية أخر فانظرها في الفتح والإمداد وشروح المنية (رد المحتار ۲/۲۱۲)
[۱۰] ( ويسلم ) بلا دعاء ( بعد الرابعة ) تسليمتين ناويا الميت مع القوم ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم وفي جواهر الفتاوى يجهر بواحدة قال الشامي : قوله ( لكن في البدائع الخ ) قد يقال إن الزيلعي لم يرد دخول التسليم في الكلية المذكورة والذي في البدائع ولا يجهر بما يقرأ عقب كل تكبيرة لأنه ذكر والسنة فيه المخافتة وهل يرفع صوته بالتسليم لم يتعرض له في ظاهر الرواية وذكر الحسن بن زياد أنه لا يرفع لأنه للإعلام ولا حاجة له لأن التسليم مشروع عقب التكبير بلا فصل ولكن العمل في زماننا على خلافه اهـ (رد المحتار۲/۲۱۳)