اگر کسی مسلمان کے قریبی غیرمسلم رشتہ دار کا انتقال ہو جائے، تو اس کی لاش اس کے غیر مسلم رشتہ داروں کے حوالہ کر دی جائے یا ان لوگوں کے حوالہ کر دی جائے جو میت کے مذہب کے پیروکار ہیں۔ اور اگر میت کے غیر مسلم رشتہ دار نہ ہوں یا غیر مسلم رشتہ دار ہوں، مگر وہ لاش لینے کے لیے تیار نہ ہوں، تو ایسی مجبوری کی حالت میں مسلمان رشتہ دار کے لیے اس کو غسل دینا جائز ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیر مسلم کی لاش کو مسنون طریقہ کے مطابق غسل نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کو اس طرح دھویا جائےگا، جس طرح ناپاک کپڑے کو دھویا جاتا ہے پھر اس کو نمازِ جنازہ کے بغیر گاڑ دیا جائےگا۔ [۱۱]
تنبیہ :- کافر کی لاش کو دھونے کی وجہ سے ، کافر پاک نہیں ہوگا ۔[۱۲]
تیمم کے بعد غسل دینا:
اگر پانی دستیاب نہ تھا اور اس بنا پر میت کو تیمم کرا دیا گیا لیکن بعد میں میت کو دفن کرنے سے پہلے پانی مل گیا تو کیا میت کو غسل دیا جائے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے تیمم ساقط ہو جائے گا اور میت کو غسل دینا ضروری ہے اور اگر تیمم کرانے کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جاچکی ہو ،تو اس جنازہ کی نماز کی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اگر نماز جنازہ ادا نہیں ہوئی تو غسل دینے کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ [۱۳]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1662
[۱۱] وإذا مات الكافر وله ولي مسلم فإنه يغسله ويكفنه ويدفنه بذلك أمر علي رضي الله عنه في حق أبيه أبي طالب لكن يغسل غسل الثوب النجس ويلف في خرقة وتحفر حفيرة من غير مراعاة سنة التكفين واللحد ولا يوضع فيه بل يلقى (الهداية ۱/۱۸۱)
[۱۲] ولا يكون الغسل طهارة له حتى لو حمله إنسان وصلى لم تجز صلاته (البحر الرائق ۲/۲٠۵)
[۱۳] يمم لفقد ماء وصلي عليه ثم وجدوه غسلوه وصلوا ثانيا وقيل لا قال الشامي : قوله ( يمم لفقد ماء الخ ) قال في الفتح ولو لم يوجد ماء فيمم الميت وصلوا عليه ثم وجدوه غسلوه وصلوا عليه ثانيا عند أبي يوسف وعنه يغسل ولا تعاد الصلاة عليه ولو كفنوه وبقي منه عضو لم يغسل فإنه يغسل ذلك العضو ولو بقي نحو الأصبع لا يغسل اهـ قوله ( وقيل لا ) أي يغسل ولا يصلى عليه كما علمته قلت ولا يظهر الفرق بينه وبين الحي فإن الحي لو تيمم لفقد الماء وصلى ثم وجده لا يعيد ثم رأيت في شرح المنية نقلا عن السروجي أن هذه الرواية موافقة للأصول اهـ وفيه إشعار بترجيحها لما قلنا (رد المحتار ۲/۲٠۱)