اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کا انتقال ہو جائے زلزلہ اور سیلاب وغیرہ میں, اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لاشوں میں امتیاز کرنا ناممکن ہو، تو اس کی مختلف صورتیں ہیں:
(۱) اگر کسی طرح سے معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں سے زیادہ ہو، تو تمام لاشوں کو غسل دیاجائےگا اور کفن پہنایا جائےگا۔ نیز سب کے اوپر نماز جنازہ بھی ادا کی جائےگی اس نیت سے کہ نماز جنازہ صرف مسلمانوں کے لیے ادا کی جا رہی ہے۔ پھر سب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا جائےگا۔ [۸]
(۲) اگر کسی طرح سے معلوم ہو جائے کہ غیر مسلموں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہو، تو ان لاشوں کو نہ غسل دیا جائے اور نہ ہی کفن پہنایا جائے۔ البتہ تمام لاشوں کو دھویا جائے جس طرح ناپاک کپڑے کو دھویا جاتا ہے پھر ان سب کو کپڑوں میں لپیٹ کر غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔ ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے۔ [۹]
(۳) اگر کسی طرح سے معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تعداد برابر ہو، تو کسی بھی لاش کو نہ غسل دیا جائے اور نہ ہی کفن پہنایا جائے۔ البتہ تمام لاشوں کو دھویا جائے جس طرح ناپاک کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔ پھر ان سب کو کپڑوں میں لپیٹ کر نماز جنازہ کے بغیر دفن کر دیا جائے۔
نوٹ:- تیسری صورت میں (جب مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تعداد برابر ہو) فقہائے کرام کی اس سلسلہ میں تین آراء ہیں کہ لاشوں کو کہاں دفن کیا جائے۔ ان تین آراء میں سے اگر کسی بھی رائے پر عمل کیا جائے تو جائز ہے۔
پہلی رائے: لاشوں کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔
دوسری رائے: لاشوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔
تیسری رائے: لاشوں کو نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے؛ بلکہ کسی علیٰحدہ جگہ میں دفن کیا جائے۔ [۱۰]
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں(جہاں مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں سے زیادہ ہو یا کم ہو یا برا بر ہو) بعض فقہائے کرام کی رائے یہ ہے کہ تمام لاشوں کو غسل دیا جائے، انہیں کفن پہنایا جائے اور ان کے اوپر نماز جنازہ ادا کی جائے اس نیت سے کہ نماز جنازہ صرف مسلمانوں کی ادا کی جا رہی ہے۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1662
[۸] اختلط موتانا بكفار ولا علامة اعتبر الأكثر فإن استووا غسلوا واختلف في الصلاة عليهم ومحل دفنهم كدفن ذمية حبلى من مسلم قالوا والأحوط دفنها على حدة ويجعل ظهرها إلى القبلة لأن وجه الولد لظهرها (الدر المختار ۲/۲٠٠) قال الشامي : (قوله اعتبر الأكثر) أي في الصلاة بقرينة قوله في الاستواء واختلف في الصلاة عليهم قال في الحلية : فإن كان بالمسلمين علامة فلا إشكال في إجراء أحكام المسلمين عليهم وإلا فلو المسلمون أكثر صلى عليهم وينوي بالدعاء المسلمين ولو الكفار أكثر ففي شرح مختصر الطحاوي للإسبيجابي لا يصلى عليهم لكن يغسلون ويكفنون ويدفنون في مقابر المشركين اهـ قال ط وكيفية العلم بالأكثر أن يحصى عدد المسلمين ويعلم ما ذهب منهم ويعد الموتى فيظهر الحال قوله ( واختلف في الصلاة عليهم ) فقيل لا يصلى لأن ترك الصلاة على المسلم مشروع في الجملة كالبغاة وقطاع الطرق فكان أولى من الصلاة على الكافر لأنها غير مشروعة لقوله تعالى ولا تصل على أحد منهم مات أبدا وقيل يصلى ويقصد المسلمين لأنه إن عجز عن التعيين لا يعجز عن القصد كما في البدائع قال في الحلية فعلى هذا ينبغي أن يصلى عليهم في الحالة الثانية أيضا أي حالة ما إذا كان الكفار أكثر لأنه حيث قصد المسلمين فقط لم يكن مصليا على الكفار وإلا لم تجز الصلاة عليهم في الحالة الأولى أيضا مع أن الاتفاق على الجواز فينبغي الصلاة عليهم في الأحوال الثلاث كما قالت به الأئمة الثلاث وهو أوجه قضاء لحق المسلمين بلا ارتكاب منهي عنه اهـ ملخصا قوله ( كدفن ذمية ) جعل الأول مشبها بهذا لأنه لا رواية فيه عن الإمام بل فيه اختلاف المشايخ قياسا على هذه المسألة فإنه اختلف فيها الصحابة رضي الله تعالى عنهم على ثلاثة أقوال فقال بعضهم تدفن في مقابرنا ترجيحا لجانب الولد وبعضهم في مقابر المشركين لأن الولد في حكم جزء منها ما دام في بطنها وقال وائلة بن الأسقع يتخذ لها مقبرة على حدة قال في الحلية وهذا أحوط والظاهر كما أفصح به بعضهم أن المسألة مصورة فيما إذا نفخ فيه الروح وإلا دفنت في مقابر المشركين قوله ( لأن وجه الولد لظهرها ) أي والولد مسلم تبعا لأبيه فيوجه إلى القبلة بهذه الصفة ط (رد المحتار ۲/۲٠۱)
[۹] وإن كانت الغلبة للمشركين فإنه لا يصلى على الكل ولكن يغسلون ويكفنون ولكن لا على وجه غسل موتى المسلمين وتكفينهم ويدفنون في مقابر المشركين وإن كانا سواء فلا يصلى عليهم أيضا (الفتاوى الهندية ۱/۱۵۹).
[۱٠] واختلف المشايخ في دفنهم قال بعضهم في مقابر المشركين وقال بعضهم في مقابر المسلمين وقال بعضهم يتخذ لهم مقبرة على حدة (الفتاوى الهندية ۱/۱۵۹)