حظي أربعة من الصحابة رضي الله عنهم بشرف كونهم مؤذني رسول الله صلى الله عليه وسلم. اثنان عينهما رسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنين بالمدينة المنورة: سيدنا بلال بن رباح وسيدنا عمرو بن أم مكتوم رضي الله عنهما، وعيّن رسول الله صلى الله عليه وسلم بقباء سعد القرظ رضي الله عنه، وعيّن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة سيدنا أبا محذورة رضي الله عنه. (من زاد المعاد ١/١٢٠)
چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے۔
حضرت بلال اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے مؤذن مقرر کیا تھا۔ حضرت سعد القرض رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ قبا کا مؤذن مقرر کیا تھا اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کا مؤذن مقرر کیا تھا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آزادی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آزادی کی تمنا
ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام پر عمل کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ انہیں کفار کے ہاتھوں پر مسلسل اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں۔ جبمؤذن کفار ان کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے تھے، تو وہ انکار کرتے تھے اور “اللہ! اللہ!” کا اعلان کرتے تھے (صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے)۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کاش ہمارے پاس کچھ مال ہوتا، جس سے ہم بلال کو خرید کر سکتے (اور انہیں آزاد کر لیتے)؛ چناں چہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ جاؤ اور میرے لیے بلال کو خرید لو۔
چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مالک کے پاس گئے، جو ایک خاتون تھی اور اس سے کہا کہ کیا تم مجھ سے اپنا یہ غلام بیچوگی، اس سے قبل کہ (اس کو مارا جائے؛ یہاں تک کہ وہ مر جائے) اور تمہیں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا؟
یہ خاتوں اس پیشکش پر حیران ہوئی اور عرض کیا کہ اس غلام کو خرید کر آپ کیا کریں گے؟ پھر وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں شکایت کرنے لگی اور کہنے لگی کہ اس میں کوئی اچھائی نہیں ہے!
بالآخر حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدنے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ (اسد الغابہ ۱/۲۳۷)
حضرت قیس رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے پانچ اوقیہ سونا کے بدلے اس وقت خریدا تھا، جب وہ ایک بڑی چٹان کے نیچے دبے ہوئے تھے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اسلام پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے کفار اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے بعد میں (اس کو خریدنے کے بعد) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ اگر آپ ہمیں اس غلام کے لیے صرف ایک اوقیہ ادا کرنے پر اصرار کرتے، تو ہم اس کو آپ کے ہاتھ بیچ دیتے۔
یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بے ساختہ جواب دیا کہ اگر تم مجھ سے اس کے لیے ایک سو اوقیہ بھی مانگتے، تو میں اس کو تم سے اس قیمت کے بدلے خرید لیتا۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۲۱۹)
جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید لیا، تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو خریداری کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں بلال کا کچھ حصہ خرید لوں اور اس کی ملکیت میں آپ کا شریک بن جاؤں؟ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں شریک ہونے کی خواہش اس لیے کی کہ جب وہ انہیں آزاد کریں گے، تو ان کو بھی ثواب میں حصہ ملےکا)؛ مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کر چکا ہے۔ (سیار اعلام النبلاء ۳/۲۱۹)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لیے جو قیمت ادا کی تھی، اس کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں۔
علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے تین اقوال ذکر کیے ہیں: (۱) پانچ اوقیہ (۲) سات اوقیہ (۳) نو اوقیہ۔ (اسد الغابہ ۱/۲۳۷)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے امام شعبی رحمہ اللہ کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں وارد ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لیے چالیس اوقیہ ادا کیے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۲۱۹)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لیے اپنا ایک غلام دیا۔ (اصابہ ۱/۴۵۶)
نوٹ: ایک اوقیہ سونے کی قیمت ۴۰ درہم ہے۔
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી