حضرت بلال رضی اللہ عنہ – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تلقى مالا للمسلمين، أودعه عند سيدنا بلال رضي الله عنه (معينا له خازنا عليه) (من الإصابة ١/٤٥٥)

جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسلمانوں کے لیے کوئی مال آتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیتے تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مال پر اپنے خزانچی مقرر کر دیتے تھے)۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی

حضرت بلال رضی الله عنہ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے اخراجات کی کیا صورت ہوتی تھی؟

حضرت بلال رضی الله عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس کچھ جمع تو رہتا ہی نہیں تھا۔ یہ خدمت میرے سپرد تھی، جس کی صورت یہ تھی کہ کوئی مسلمان بھوکا آتا، تو حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم مجھے ارشاد فرما دیتے، میں کہیں سے قرض لے کر اس کو کھانا کھلا دیتا۔ کوئی ننگا آتا، تو مجھے ارشاد فرما دیتے، میں کسی سے قرض لے کر اس کو کپڑا پہنا دیتا۔ یہ صورت ہوتی رہتی تھی۔

ایک مرتبہ ایک مشرک مجھے ملا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے وسعت اور ثروت حاصل ہے، تو کسی سے قرض نہ لیا کر۔ جب ضرورت ہوا کرے، مجھ ہی سے قرض لے لیا کر۔ میں نے کہا: اس سے بہتر کیا ہوگا؟ اس سے قرض لینا شروع کر دیا۔

جب ارشادِ عالی ہوتا، اس سے قرض لے آیا کرتا اور ارشاد والا کی تعمیل کر دیتا۔

ایک مرتبہ وضو کر کے اذان کہنے کے لیے کھڑا ہی ہوا تھا کہ وہی مشرک ایک جماعت کے ساتھ آیا اور کہنے لگا: او حبشی! میں اُدھر متوجہ ہوا، تو ایک دم بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور برا بھلا جو منہ میں آیا، کہا اور کہنے لگا کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں؟ میں نے کہا: قریب ختم کے ہے۔ کہنے لگا کہ چار دن باقی ہیں۔ اگر مہینہ کے ختم تک میرا سب قرضہ ادا نہ کیا، تو تجھے اپنے قرضہ میں غلام بناؤں گا اور اسی طرح بکریاں چراتا پھرےگا، جیسا پہلے تھا۔

یہ کہہ کر چلا گیا۔ مجھ پر دن بھر جو گذرنا چاہیے تھا، وہی گذرا۔ تمام دن رنج وصدمہ سوار رہا اور عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں تنہائی میں حاضر ہوا اور سارا قصہ سنایا اور عرض کیا: یا رسول الله! نہ آپ کے پاس اس وقت ادا کرنے کو فوری انتظام ہے اور نہ کھڑے کھڑے میں کوئی انتظام کر سکتا ہوں۔ وہ ذلیل کرےگا؛ اس لیے اگر اجازت ہو، تو اتنے قرض اُترنے کا انتظام ہو، میں کہیں روپوش ہو جاؤں؟ جب آپ کے پاس کہیں سے کچھ آجائےگا، میں حاضر ہو جاؤں گا۔

یہ عرض کر کے میں گھر آیا۔ تلوار لی۔ ڈھال اٹھائی۔ جوتا اٹھایا۔ یہی سامانِ سفر تھا اور صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا کہ صبح کے قریب ہی کہیں چلا جاؤں گا۔

صبح قریب تھی کہ ایک صاحب دوڑے ہوئے آئے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں جلدی چلو۔ میں حاضرِ خدمت ہوا، تو دیکھا کہ چار اونٹنیاں، جن پر سامان لدا ہوا تھا، بیٹھی ہیں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: خوشی کی بات سناؤں کہ الله تعالیٰ نے تیرے قرضہ کی بے باقی کا انتظام فرما دیا۔ یہ اونٹنیاں بھی تیرے حوالے اور ان کا سب سامان بھی۔ فَدَک کے رئیس نے یہ نذرانہ مجھے بھیجا ہے۔

میں نے الله کا شکر ادا کیا اور خوشی خوشی ان کو لے کر گیا اور سارا قرضہ ادا کر کے واپس آیا۔

حضور صلی الله علیہ وسلم اتنے مسجد میں انتظار فرماتے رہے۔ میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ حضور! الله کا شکر ہے۔ حق تعالیٰ نے سارے قرضہ سے آپ کو سبکدوش کر دیا اور اب کوئی چیز بھی قرضہ کی باقی نہیں رہی۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سامان میں سے بھی کچھ باقی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! کچھ باقی ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بھی تقسیم ہی کر دے؛ تاکہ مجھے راحت ہو جائے۔ میں گھر میں بھی اس وقت تک نہیں جانے کا؛ جب تک یہ تقسیم نہ ہو جائے۔

تمام دن گذر جانے کے بعد عشاء کی نماز سے فراغت پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ وہ بچا ہوا مال تقسیم ہو گیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ موجود ہے۔ ضرورت مند آئے نہیں، تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے مسجد ہی میں آرام فرمایا۔

دوسرے دن عشاء کے بعد پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہو جی! کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ الله جل شانہ نے آپ کو راحت عطا فرمائی کہ وہ سب نمٹ گیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے الله جل جلالہ کی حمد وثنا فرمائی۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کو یہ ڈر ہوا کہ خدا نخواستہ موت آ جائے اور کچھ حصہ مال کا آپ کی ملک میں رہے۔

اس کے بعد گھروں میں تشریف لے گئے اور بیویوں سے ملے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۶۰-۶۲)

Check Also

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی سچائی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أظلت الخضراء (أي: السماء) ولا أقلت الغبراء …