فضائلِ اعمال – ۳۰

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھوک میں مسئلہ دریافت کرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ اس وقت ہماری حالتیں دیکھتے کہ ہم میں سے بعضوں کو کئی کئی وقت تک اتنا کھانا نہیں ملتا تھا، جس سے کمر سیدھی ہو سکے۔ میں بھوک کی وجہ سے جِگر کو زمین سے چپٹا دیتا اور کبھی پیٹ کے بل پڑا رہتا تھا اور کبھی پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔

ایک مرتبہ میں راستہ میں بیٹھ گیا، جہاں کو ان حضرات کا راستہ تھا۔ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گذرے۔ میں نے ان سے کوئی بات پوچھنا شروع کر دی۔ خیال تھا کہ یہ بات کرتے ہوئے گھر تک لے جائیں گے اور پھر عادت تشریفہ کے موافق جو موجود ہوگا، اس میں تواضع ہی فرمائیں گے؛ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا (غالباً ذہن منتقل نہیں ہوا یا اپنے گھر کا حال معلوم ہوگا کہ وہاں بھی کچھ نہیں)۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ ان کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی۔

پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میری حالت اور غرض سمجھ گئے اور ارشاد فرمایا: ابو ہریرہ! میرے ساتھ آؤ۔ میں ساتھ ہو لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ میں ساتھ اندر حاضری کی اجازت لے کر حاضر ہوا۔

گھر میں ایک پیالہ دودھ کا رکھا ہوا تھا، جو خدمتِ اقدس میں پیش کیا گیا۔ دریافت فرمایا کہ کہاں سے آیا ہے؟ عرض کیا: فلاں جگہ سے حضور کے لیے ہدیہ میں آیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابو ہریرہ! جاؤ، اہل صفہ کو بلا لاؤ۔ اہل صفہ اسلام کے مہمان شمار ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے نہ گھر تھا، نہ در، نہ ٹھکانا، نہ کھانے کا کوئی مستقل انتظام۔ ان حضرات کی مقدار کم وبیش ہوتی رہتی تھی؛ مگر اس قصہ کے وقت ستر (۷۰) تھی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ بھی تھا کہ ان میں سے دو دو، چار چار کو کسی کھاتے پیتے صحابی کا کبھی کبھی مہمان بھی بنا دیتے اور خود اپنا معمول یہ تھا کہ کہیں سے صدقہ آتا، تو ان لوگوں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں شرکت نہ فرماتے اور کہیں سے ہدیہ آتا، تو ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس میں شرکت فرماتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلانے کا حکم دیا۔ مجھے گراں تو ہوا کہ اس دودھ کی مقدار ہی کیا ہے، جس پر سب کو بُلا لاؤں؟ سب کا کیا بھلا ہوگا؟ ایک آدمی کو بھی مشکل سے کافی ہوگا اور پھر بلانے کے بعد مجھ ہی کو پلانے کا حکم ہوگا؛ اس لیے نمبر بھی اخیر میں آئےگا، جس میں بچےگا بھی نہیں؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر چارہ ہی کیا تھا؟ میں گیا اور سب کو بلا لایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لے ان کو پلا۔ میں ایک شخص کے پیالہ حوالہ کرتا اور وہ خوب سیر ہو کر پیتا اور پیالہ مجھے واپس دیتا۔ اسی طرح سب کو پلایا اور سب سیر ہو گئے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ دست مبارک میں لے کر مجھے دیکھا اور تبسم فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بس، اب تو میں اور تُو ہی باقی ہیں۔

میں نے عرض کیا کہ بے شک۔ فرمایا کہ لے، پی۔ میں نے پیا۔ ارشاد فرمایا: اور پی۔ میں نے اور پیا۔ بالآخر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب میں نہیں پی سکتا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا بچا ہوا خود نوش فرمایا۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۶۲-۶۴)

Check Also

فضائلِ صدقات – ۲۴

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت محمد بن منکدر رحمہ اللہ ایک مرتبہ حضرت …