لما حضّ رسول الله صلى الله عليه وسلم الصحابة رضي الله عنهم على الإنفاق تجهيزا للجيش لغزوة تبوك، أنفق سيدنا عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه مائتي أوقية (ثمانية آلاف درهم) في سبيل الله. (من تاريخ ابن عساكر ٢/٢٨)
غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لشکر تیار کرنے کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی، تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دو سو اوقیہ چاندی (یعنی آٹھ ہزار درہم) اللہ کے راستے میں خرچ کیے۔ (تاریخ ابن عساکر ۲/۲۸)
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مال خرچ کرنا
جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہونے کا حکم دیا، تو اس وقت بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس اس طویل اور دشوار سفر کے لیے کافی وسائل نہیں تھے؛ خاص طور پر ان کا مقابلہ رومی فوج سے ہونے والا تھا، جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ ہر قسم کے ہتھیار سے مسلح تھی۔
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو تیار کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان لوگوں کی نصرت کرنے کی ترغیب فرمائی، جن کے پاس اس غزوہ میں حصہ لینے کے لیے وسائل نہیں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ کیا کہ اس نصرت کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بڑا اجر ملےگا؛ چناں چہ بہت سے غریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سفر کے لیے سواریاں اور سامان دیے گئے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اس موقع پر حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل تھے، جنہوں نے سب سے زیادہ مال خرچ کیا تھا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دو سو اوقیہ چاندی (یعنی آٹھ ہزار درہم) خرچ کیے۔
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے خیال میں عبد الرحمٰن نے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟
انہوں نے جواب دیا: ہاں، میں نے ان کے لیے اس سے کہیں زیادہ چھوڑا ہے، جو میں نے خرچ کیا ہے اور جو کچھ میں نے ان کے لیے چھوڑا ہے، وہ واقعی ان کے لیے بہتر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ان سے پوچھا کہ تم نے ان کے لیے کتنا چھوڑا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے وعدے چھوڑے ہیں کہ جو دین کی خاطر قربانی دےگا، اللہ تعالی اس کو خیر اور رزق عطا فرمائےگا۔ (تاریخ ابن عساکر ۲/۲۸)
اس واقعہ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے گھر والوں نے اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کر دیا تھا۔