حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وسعت طلب کرنے پر تنبیہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گذر کی حالت
بیویوں کی بعض زیادتیوں پر ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی تھی کہ ایک مہینہ تک ان کے پاس نہ جاؤں گا؛ تاکہ ان کو تنبیہ ہو اور علیحدہ اوپر ایک حجرہ میں قیام فرمایا تھا۔
لوگوں میں یہ شہرت ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو طلاق دے دی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے گھر تھے۔ جب یہ خبر سنی، تو دوڑے ہوئے تشریف لائے۔ مسجد میں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر بیٹھے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج اور غصہ کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ بیبیاں بھی سب اپنے اپنے گھروں میں رو رہی ہیں۔
اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ بھی مکان میں رو رہی تھیں۔ فرمایا کہ اب کیوں رو رہی ہے؟ کیا میں ہمیشہ اس سے ڈرایا نہیں کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی کوئی بات نہ کیا کر۔
اس کے بعد مسجد میں تشریف لائے۔ وہاں ایک جماعت منبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے؛ مگر شدتِ رنج سے بیٹھا نہ گیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ تشریف فرما تھے، اس کے قریب تشریف لے گئے اور حضرت رباح رضی اللہ عنہ ایک غلام کے ذریعہ سے جو دوباری کے زینہ پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے، اندر حاضری کی اجازت چاہی۔
انہوں نے حاضرِ خدمت ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اجازت مانگی؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت رباح رضی اللہ عنہ نے آ کر یہی جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا کہ میں نے عرض کر دیا تھا؛ مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مایوس ہو کر منبر کے پاس آ بیٹھے؛ مگر بیٹھا نہ گیا، تو پھر تھوڑی دیر میں حاضر ہو کر حضرت رباح رضی اللہ عنہ کے ذریعے اجازت چاہی۔
اسی طرح تین مرتبہ پیش آیا کہ یہ بیتابی سے غلام کے ذریعہ اجازت حاضری کی مانگتے، اُدھر سے جواب میں سکوت اور خاموشی ہی ہوتی۔
تیسری مرتبہ جب لوٹنے لگے، تو حضرت رباح رضی اللہ عنہ نے آواز دی اور کہا کہ تمہیں حاضری کی اجازت ہو گئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت ہوئے، تو دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریئے پر لیٹے ہوتے ہیں، جس پر کوئی چیز بِچھی ہوئی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جسم اطہر پر بوریئے کے نشانات بھی اُبھر آئے ہیں۔ خوبصورت بدن پر نشانات صاف نظر آیا ہی کرتے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی۔
میں نے سلام کیا اور سب سے اول تو یہ پوچھا: کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔
اس کے بعد میں نے دل بَستگی کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے؛ مگر جب مدینہ آئے، تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں مردوں پر غالب ہیں۔ ان کو دیکھ کر قریش کی عورتیں بھی اس سے متاثر ہو گئیں۔
اس کے بعد میں نے ایک آدھ بات اور کی، جس سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر تبسم کے آثار ظاہر ہوئے۔
میں نے دیکھا کہ گھر کا کُل سامان یہ تھا: تین چمڑے بغیر دباغت دیئے ہوئے اور ایک مٹھی، جو ایک کونے میں پڑے ہوتے تھے۔
میں نے ادھر اُدھر نظر دوڑا کر دیکھا، تو اس کے سوا کچھ نہ ملا۔ میں دیکھ کر رو دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریئے کے نشانات آپ کے بدن مبارک پر پڑ رہے ہیں اور گھر کی کُل کائنات یہ ہے، جو میرے سامنے ہے۔
پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا کیجیئے کہ آپ کی اُمت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم وفارس بے دین ہونے کے با وجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ان پر تو یہ وسعت۔ یہ قیصر وکسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور اس کے خاص بندہ ہو کر یہ حالت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہت بہتر ہے۔ ان کفار کی طیّبات اور اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
ف: یہ دین ودنیا کے بادشاہ اور اللہ کے لاڈلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل ہے کہ بوریئے پر کوئی چیز بچھی ہوئی بھی نہیں۔ نشانات بدن پر پڑے ہوئے ہیں۔ گھر کے ساز وسامان کا حال بھی معلوم ہو گیا۔ اس پر ایک شخص نے دعا کی درخواست کی، تو تنبیہ فرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بِسترہ کیسا تھا؟ فرمایا کہ ایک چمڑہ کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ کیسا تھا؟ فرمایا کہ ایک ٹاٹ تھا، جس کو دوہرا کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیتی تھی۔
ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اگر اس کو چوہرا کر کے بچھا دوں، تو زیادہ نرم ہو جائے؛ چنانچہ ہم نے بچھا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو فرمایا کہ رات کیا بچھا دیا تھا؟ ہم نے عرض کر دیا کہ وہی ٹاٹ تھا۔ اس کو چوہرا کر دیا تھا۔ فرمایا: اس کو ویسا ہی کر دو، جیسا پہلے تھا۔ اس کی نرمی رات کو اٹھنے میں مانع بنتی ہے۔
اب ہم لوگ اپنے نرم، نرم اور رُوئیں دار گدوں پر بھی نگاہ ڈالیں کہ اللہ نے کس قدر وسعت فرما رکھی ہے اور پھر بھی بجائے شکر کے، ہر وقت تنگی کی شکایت ہی زبان پر رہتی ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۵۳-۵۶)