فضائلِ صدقات – ۱۹

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

بصرہ کے چند قاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارا ایک پڑوسی ہے، جو بہت کثرت سے روزے رکھنے والا ہے، بہت زیادہ تہجد پڑھنے والا ہے۔ اس کی عبادت کو دیکھ کر ہم میں سے ہر شخص رشک کرتا ہے اور اس کی تمنا کرتا ہے کہ اس کی سی عبادت ہم بھی کیا کریں۔

اس نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے؛ لیکن غریب کے پاس جہیز کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان حضرات کو لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک صندوق کھولا۔ اس میں سے چھ توڑے (روپیہ یا اشرفی کی تھیلی توڑا کہلاتی ہے) نکالے اور ان حضرات کے حوالہ کر دیے کہ اس کو دے دیں۔

یہ لے کر چلنے لگے، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا کہ ہم لوگوں نے اس کے ساتھ انصاف کا برتاؤ نہیں کیا۔

یہ مال اس کے حوالہ اگر کر دیا جائےگا، تو اس غریب کو بڑی دِقّت ہوگی۔ وہ اس جہیز کے انتظام کے جھگڑے میں لگ جائےگا، جس سے اس کی مشغولی بڑھ جائےگی، اس کی عبادت میں حرج ہوگا۔

اس دنیا کم بخت کا ایسا درجہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے ایک عبادت گزار مؤمن کا حرج کیا جائے۔

ہماری اس میں کیا شان گھٹ جائےگی کہ ایک دین دار کی خدمت ہم ہی کر دیں؛ لہذا اس مال سے شادی کا سارا انتظام ہم سب مل کر کر دیں اور سامان تیار کر کے اس کے حوالہ کر دیں۔

وہ حضرات بھی اس پر راضی ہو گئے اور سارا سامان اس رقم سے مکمل تیار کر کے اس فقیر کے حوالہ کر دیا۔ (احیاء العلوم)

(فضائلِ صدقات، ص ۶۹۸)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۴

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زہد وفقر کے بیان میں اس بارے میں …