عيّن سيدنا عمر رضي الله عنه قبل موته ستة من الصحابة الكرام رضي الله عنهم وأمرهم باختيار الخليفة من بينهم، وقال حينئذ: ولو كان أبو عبيدة حيا لاستخلفته (على المسلمين) (تفسير ابن كثير ٨/٥٤)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال سے پہلے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بنائی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ ان ہی میں سے اگلے خلیفہ کا انتخاب کریں۔
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر آج ابو عبیدہ زندہ ہوتے، تو میں انہیں ضرور (مسلمانوں کا) خلیفہ بناتا۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعتماد
ایک مرتبہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملکِ شام کی سرحد پر پہنچے، تو انہیں ملکِ شام میں طاعون پھیلنے کی اطلاع ملی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر مجھے موت آ جائے اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ زندہ ہوں، تو میں انہیں اپنے بعد خلیفہ بناؤں گا۔
اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھیں گے کہ تم نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں مقرر کیا؟ تو میں اللہ تعالیٰ سے کہوں گا کہ میں نے ان کو اس لیے خلیفہ مقرر کیا کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر نبی کا (اپنی امت میں) ایک امین تھا اور (میری امت میں) میرے خاص امین ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں۔ (مسند احمد، الرقم: ۱۰۸)
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال سے پہلے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بنائی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ ان ہی میں سے اگلے خلیفہ کا انتخاب کریں۔
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر آج ابو عبیدہ زندہ ہوتے، تو میں انہیں ضرور (مسلمانوں کا) خلیفہ بناتا۔ (تفسیر ابن الکثیر ۸/۵۴)