زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزہ کی فرضیت سے قبل فرض ہوئی تھی۔

قرآنِ کریم کی بہت سی آیتوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حدیثوں میں زکوٰۃ ادا کرنے کی فضیلتیں اور اس کا عظیم ثواب بیان کیا گیا ہے۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے مالوں کی حفاظت کرو اور اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور بلا اور مصیبت کی مَوجوں کا دعا اور اللہ تعالی کے سامنے عاجزی سے استقبال کرو۔ (مراسیل ابی داود، الرقم: ۱۰۵)

ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مال کی زکوٰۃ ادا کر دے، تو اس مال کی شر اس سے جاتی رہتی ہے۔ (المعجم الاوسط، الرقم: ۱۵۷۹)

زکوٰۃ – ایک دائمی سرمایہ کاری 

ہر شخص آرزو کرتا ہے کہ اس کو ایک دائمی سعادت حاصل ہو جائے۔ ایسی سعادت جو کبھی ختم نہ ہو اور نہ ہی کسی وقت کم ہو؛ بلکہ ہر لمحہ اس میں اضافہ ہوتا رہے اور اس کا نفع بڑھتا رہے۔

اللہ تعالی نے ہمیں زکوٰۃ کے ذریعہ ایسی سعادت حاصل کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔

جب کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے، تو اس کو ایک دائمی سرمایہ کاری یعنی آخرت کی سرمایہ کاری حاصل ہوتی ہے، جو کبھی بھی کم نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اتنا زیادہ اضافہ کہ جب زکوٰۃ ادا کرنے والا آخرت میں پہونچےگا، تو وہ دیکھےگا کہ جو کھجور اس نے صدقہ کے طور پر اللہ تعالی کی رضا کے لیے خرچ کیا تھا، اس کا اجر وثواب اتنا بڑا ہوگا کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا ہوگا۔

ایک حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے اور الله تعالی صرف پاک چیزوں کو قبول فرماتے ہیں، تو الله تعالی اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے قبول فرماتے ہیں (یعنی الله تعالی اس کو قبول فرماتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں)، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لیے پالتے رہتے ہیں، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے اور بڑھاتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ خیرات (جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے دیتا ہے، آخرت میں اس خیرات کی وزن) پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ (صحیح البخاری، الرقم: ۱۴۱۰)

صحیح مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ وہ صدقہ (وزن میں) پہاڑ سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۰۱۴)

قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے زکوٰۃ اور صدقہ کا عظیم اجر وثواب بیان کیا ہے؛ چناں چہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ‎﴿٢٦١﴾‏

ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ایسی ہے، جیسے کہ ایک دانہ، اس سے سات بالیں اگیں، ہر بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ تعالی ثواب بڑھاتا ہے، جس کے لیے چاہتا ہے اور اللہ تعالی بڑی وسعت والے، جاننے والے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۶۱)

البتہ اس سرمایہ کاری میں کامیابی کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اس فریضہ کو اخلاص کے ساتھ سنت کے مطابق حلال مال سے ادا کرے۔

احادیثِ مبارکہ میں اللہ کے راستے میں نفل صدقات کی بے پناہ فضیلتیں وارد ہوئی ہیں؛ البتہ سب سے زیادہ فضیلت زکوۃ کی بیان کی گئی ہے؛ لہذا زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب نفل صدقہ کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے، بشرط یہ کہ یہ زکوٰۃ صحیح طریقے سے اور اخلاص کے ساتھ ادا کی جائے۔

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ‏۵

اموالِ زکوۃ مندرجہ ذیل اموال پر زکوٰۃ فرض ہے: ‏(۱) نقد مال جو آدمی کے …