علمائے آخرت کی بارہ علامات
چھٹی علامت:
چھٹی علامت علمائے آخرت کی یہ ہے کہ فتوٰی صادر کر دینے میں جلدی نہ کرے۔ مسئلہ بتانے میں بہت احتیاط کرے۔ حتیٰ الوسع اگر کوئی اہل ہو، تو اس کے حوالہ کر دے۔
ابو حفص نیشاپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عالم وہ ہے کہ جو مسئلہ کے وقت اس سے خوف کرتا ہو کہ کل کو قیامت میں یہ جواب دیہی کرنا پڑےگی کہ کہاں سے بتایا تھا۔
بعض علما نے کہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چار چیزوں سے بہت احتراز کرتے تھے:
۱۔ امامت کرنے سے
۲۔ وصی بننے سے (یعنی کسی کی وصیت میں مال وغیرہ تقسیم کرنے سے)
۳۔ امانت رکھنے سے
۴۔ فتوی دینے سے۔
اور ان کا خصوصی مشغلہ پانچ چیزیں تھیں:
۱۔ قرآنِ پاک کی تلاوت
۲- مساجد کا آباد کرنا
۳۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر
۴۔ اچھی باتوں کی نصیحت کرنا
۵۔ بری باتوں سے روکنا۔
ابن حصین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعض آدمی ایسے جلدی فتوٰی صادر کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوتا، تو سارے بدر والوں کو اکٹھا کر کے مشورہ کرتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ اتنے جلیل القدر صحابی ہیں کہ دس برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ جب ان سے مسئلہ دریافت کیا جاتا، تو فرماتے: مولانا الحسن رحمہ الله سے دریافت کرو (یہ حضرت حسن بصری رحمہ الله مشہور فقہا اور مشہور صوفیہ میں ہیں اور تابعی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ با وجود صحابی ہونے کے ان تابعی کا نام بتاتے ہیں)۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جب مسئلہ دریافت کیا جاتا (حالانکہ وہ مشہور صحابی اور رئیس المفسرین ہیں)، تو فرماتے کہ جابر بن زید رحمہ اللہ (جو اہلِ فتوی تابعی ہیں) سے دریافت کرو۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو خور بڑے مشہور فقیہ صحابی ہیں، حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ (تابعی) پر حوالہ فرما دیتے۔ (فضائلِ صدقات، ص ۴۹۱-۴۹۲)