علمائے آخرت کی بارہ علامات
تیسری علامت:
تیسری علامت یہ ہے کہ ایسے علوم میں مشغول ہو، جو آخرت میں کام آنے والے ہوں، نیک کاموں میں رغبت پیدا کرنے والے ہوں۔ ایسے علوم سے احتراز کرے، جن کا آخرت میں کوئی نفع نہیں ہے یا نفع کم ہے۔ ہم لوگ اپنی نادانی سے ان کو بھی علم کہتے ہیں، جن سے صرف دنیا کمانا مقصود ہو؛ حالانکہ وہ جہلِ مرکّب ہے کہ ایسا شخص اپنے کو پڑھا، لکھا سمجھنے لگتا ہے، پھر اس کو دین کے علوم سیکھنے کا اہتمام بھی نہیں رہتا۔
جو شخص کچھ بھی پڑھا ہوا نہ ہو، وہ کم سے کم اپنے آپ کو جاہل تو سجمھتا ہے، دین کی باتیں معلوم کرنے کی کوشش تو کرتا ہے؛ مگر جو اپنی جہالت کے باوجود اپنے کو عالم سمجھنے لگے، وہ بڑے نقصان میں ہے۔
حاتم اصم رحمہ اللہ جو مشہور بزرگ اور حضرت شفیق بلخی رحمہ اللہ کے خاص شاگرد ہیں۔ ان سے ایک مرتبہ حضرت شیخ نے دریافت کیا کہ حاتم! کتنے دن سے تم میرے ساتھ ہو؟ انھوں نے عرض کیا: تینتیس (۳۳) برس سے۔ فرمانے لگے کہ اتنے دنوں میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا؟ حاتم رحمہ اللہ نے عرض کیا: آٹھ مسئلے سکیھے ہیں۔ حضرت شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا: إنا لله وإنا إليه راجعون، اتنی طویل مدت میں صرف آٹھ مسئلے سیکھے۔ میری تو عمر ہی تمھاری ساتھ ضائع ہو گئی۔ حاتم رحمہ اللہ نے عرض کیا: حضور! صرف آٹھ ہی سیکھے ہیں۔ جھوٹ تو بول نہیں سکتا۔ حضرت شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اچھا بتاؤ! وہ آٹھ مسئلے کیا ہیں؟
حاتم رحمہ اللہ نے عرض کیا:-
(الف) نیکیوں سے محبت
میں نے دیکھا کہ ساری مخلوق کو کسی نہ کسی سے محبت ہے (بیوی سے، اولاد سے، مال سے، احباب سے وغیرہ وغیرہ)؛ لیکن میں نے دیکھا کہ جب وہ قبر میں جاتا ہے، تو اس کا محبوب اُس سے جدا ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے نیکیوں سے محبت کر لی؛ تاکہ جب میں قبر میں جاؤں، تو میرا محبوب بھی ساتھ ہی جائے اور مرنے کے بعد بھی مجھ سے جدا نہ ہو۔ حضرت شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا: بہت اچھا کیا۔
(ب) نفس کو حرام خواہشات سے روکنا
میں نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد قرآن پاک میں دیکھا:
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤۱﴾
اور جو شخص (دنیا میں) اپنے رب کے سامنے (آخرت میں) کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کو (حرام) خواہش سے روکا ہوگا، تو جنت اُس کا ٹھکانا ہوگا۔
میں نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد حق ہے۔ میں نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا؛ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر جم گیا۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۴-۳۵۵)
(ج) صدقہ کو آخرت میں جمع کرنا
میں نے دنیا کو دیکھا کہ ہر شخص کے نزدیک جو چیز بہت قیمتی ہوتی ہے، بہت محبوب ہوتی ہے، وہ اُس کو اٹھا کر بڑی احتیاط سے رکھتا ہے، اُس کی حفاظت کرتا ہے۔
پھر میں نے الله تعالیٰ کا ارشاد دیکھا:
مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ
جو کچھ تمہارے پاس دنیا میں ہے، وہ ختم ہو جائےگا (خواہ وہ جاتا رہے یا تم مر جاؤ، ہر حال میں وہ ختم ہوگا) اور جو الله تعالیٰ کے پاس ہے، وہ ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔
اس آیتِ شریفہ کی وجہ سے جو چیز بھی میرے پاس ایسی کبھی ہوئی، جس کی مجھے وقعت زیادہ ہوئی، وہ پسند زیادہ آئی، وہ میں نے الله تعالیٰ کے پاس بھیج دی؛ تاکہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔
(د) تقوی اختیار کرنے سے اللہ تعالی کے نزدیک شریف بننا
میں نے ساری دنیا کو دیکھا: کوئی شخص مال کی طرف (اپنی عزت اور بڑائی میں) لوٹتا ہے، کوئی حَسَب کی شرافت کی طرف، کوئی اور فخر کی چیزوں کی طرف یعنی ان چیزوں کے ذریعہ سے اپنے اندر بڑائی پیدا کرتا ہے اور اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔
میں نے الله تعالیٰ کا ارشاد دیکھا:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ
الله تعالی کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
اس بناء پر میں نے تقویٰ اختیار کر لیا؛ تاکہ الله جل شانہ کے نزدیک شریف بن جاؤں۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۵)
(ھ) کسی پر حسد نہ کرنا
میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے پر طعن کرتے ہیں، عیب جوئی کرتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں اور یہ سب کا سب حسد کی وجہ سے ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر حسد آتا ہے۔
میں نے اللہ تعالیٰ شانہ کا ارشاد دیکھا:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚوَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ
دنیوی زندگی میں ان کی روزی ہم نے ہی تقسیم کر رکھی ہے اور (اس تقسیم میں) ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے؛ تاکہ (اس کی وجہ سے) ایک دوسرے سے کام لیتا رہے (سب کے سب برابر، ایک ہی نمونہ کے بن جائیں، تو پھر کوئی کسی کا کام کیوں کرے، کیوں نوکری کرے اور اس سے دنیا کا نظام خراب ہو ہی جائےگا)۔
میں نے اس آیت شریفہ کی وجہ سے حسد کرنا چھوڑ دیا۔ ساری مخلوق سے بے تعلق ہو گیا اور میں نے جان لیا کہ روزی کا بانٹنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے۔ وہ جس کے حصہ میں جتنا چاہے، لگائے۔ اس لیے لوگوں کی عداوت چھوڑ دی اور یہ سمجھ لیا کہ کسی کے پاس مال کے زیادہ یا کم ہونے میں ان کے فعل کو زیادہ دخل نہیں ہے۔ یہ تو مالک الملک کی طرف سے ہے، اس لیے اب کسی پر غصہ ہی نہیں آتا۔
(و) شیطان کو اپنا دشمن رکھنا
میں نے دنیا میں دیکھا کہ تقریبا ہر شخص کی کسی نہ کسی سے لڑائی ہے، کسی نہ کسی سے دشمنی ہے۔ میں نے غور کیا، تو دیکھا کہ حق تعالٰی شانہ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ
شیطان بے شبہ تمہارا دشمن ہے، پس اس کے ساتھ دشمنی ہی رکھو (اس کو دوست نہ بناؤ)۔
پس میں نے اپنی دشمنی کے لیے اُسی کو چن لیا اور اُس سے دور رہنے کی انتہائی کوشش کرتا ہوں۔
اس لیے کہ جب حق تعالیٰ شانہ نے اس کے دشمن ہونے کو فرما دیا، تو میں نے اُس کے علاوہ سے اپنی دشمنی ہٹا لی۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۵-۳۵۶)
(ز) روزی لے لیے صرف اللہ تعالی پر بھروسہ رکھنا
میں نے دیکھا کہ ساری مخلوق روٹی کی طلب میں لگ رہی ہے۔ اسی کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرتی ہے اور ناجائز چیزیں اختیار کرتی ہے۔ پھر میں نے دیکھا، تو اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
اور کوئی جاندار زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے، جس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔
میں نے دیکھا کہ میں بھی انہیں زمین پر چلنے والوں میں سے ایک ہوں، جن کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پس میں نے اپنے اوقات ان چیزوں میں مشغول کر لئے، جو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم ہیں اور جو چیز اللہ تعالی کے ذمہ تھی، اُس سے اپنے اوقات کو فارغ کر لیا۔
(ح) خالق پر توکّل اور بھروسہ رکھنا
میں نے دیکھا کہ ساری مخلوق کا اعتماد اور بھروسہ کسی خاص ایسی چیز پر ہے، جو خود مخلوق ہے۔ کوئی اپنی جائداد پر بھروسہ کرتا ہے، کوئی اپنی تجارت پر اعتماد کرتا ہے، کوئی اپنی دستکاری پر نگاہ جمائے ہوئے ہے، کوئی اپنے بدن کی صحت اور قوت پر (کہ جب چاہے، جس طرح چاہے، کما لوں گا) اور ساری مخلوق ایسی چیزوں پر اعتماد کیے ہوئے ہے، جو ان کی طرح خود مخلوق ہیں۔
میں نے دیکھا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ
جو شخص الله تعالی پر توکّل (اور اعتماد) کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ اُس کے لیے کافی ہے۔
اس لیے میں نے بس اللہ تعالیٰ پر توکّل اور بھروسہ کر لیا۔
حضرت شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حاتم! تمہیں حق تعالی شانہ توفیق عطا فرمائے۔ میں نے توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن عظیم کے علوم کو دیکھا، میں نے سارے خیر کے کام ان ہی آٹھ مسائل کے اندر پائے۔ پس جو ان آٹھوں پر عمل کر لے، اس نے اللہ تعالیٰ شانہ کی چاروں کتابوں کے مضامین پر عمل کر لیا۔
اس قسم کے علوم کو علمائے آخرت ہی پا سکتے ہیں اور دنیا دار عالم تو مال اور جاہ کے ہی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ (فضائلِ صدقات، ۳۵۶-۳۵۷)