علمِ دین اور ذکر اللہ کا پورا اہتمام

ایک دن بعد نمازِ فجر، جب کہ اس تحریک میں عملی حصہ لینے والوں کا نظام الدین کی مسجد میں بڑا مجمع تھا اور حضرت مولانا رحمہ اللہ کی طبیعت اس قدر کمزور تھی کہ بستر پر لیٹے لیٹے بھی دو چار لفظ بآواز نہیں فرما سکتے تھے، تو اہتمام سے ایک خاص خادم کو طلب فرمایا اور اس کے واسطے سے اس پوری جماعت کو کہلوایا کہ:

آپ لوگوں کی یہ ساری چلت پھرت اور ساری جدو جہد بےکار ہوگی، اگر اس کے ساتھ علمِ دین اور ذکر اللہ کا پورا اہتمام آپ نے نہیں کیا (گویا یہ علم وذکر دو بازو ہیں، جن کے بغیر اس فضا میں پرواز نہیں کی جا سکتی)؛ بلکہ سخت خطرہ اور قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان دو چیزوں کی طرف سے تغافل برتا گیا، تو یہ جد وجہد مبادا فتنہ اور ضلالت کا ایک نیا دروازہ نہ بن جائے۔

دین کا اگر علم ہی نہ ہو، تو اسلام وایمان محض رسمی اور اسمی ہیں اور اللہ کے ذکر کے بغیر اگر علم ہو بھی، تو وہ سراسر ظلمت ہے اور علی ہذا اگر علمِ دین کے بغیر ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو، تو اس میں بھی بڑا خطرہ ہے۔

الغرض علم میں نور ذکر سے آتا ہے اور بغیر علم دین کے ذکر کے حقیقی برکات وثمرات حاصل نہیں ہوتے؛ بلکہ بسا اوقات ایسے جاہل صوفیوں کو شیطان اپنا آلہ کار بنا لیتا ہے۔

لہٰذا علم اور ذکر کی اہمیت کو اس سلسلہ میں کبھی فراموش نہ کیا جائے اور اس کا ہمیشہ خاص اہتمام رکھا جائے؛ ورنہ آپ کی یہ تبلیغی تحریک بھی بس ایک آورہ گردی ہو کر رہ جائےگی اور خدا نکردہ! آپ لوگ سخت خسارہ میں رہیں گے۔ (ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ، ص ۳۱-۳۲)

Check Also

مؤکدہ سنتوں کو مسجد میں پڑھنا

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: فرض کے علاوہ …