فضائلِ صدقات – ۳

کردی کا قصہ

کُرد ایک قبیلہ کا نام ہے۔ اُس میں ایک شخص مشہور ڈاکو تھا۔ وہ اپنا قصہ بیان کرتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ڈاکہ کے لیے جا رہا تھا۔

راستہ میں ہم ایک جگہ بیٹھے تھے، وہاں ہم نے دیکھا کہ کھجور کے تین درخت ہیں۔ دو پر تو خوب پھل آ رہا ہے اور ایک بالکل خشک ہے اور ایک چڑیا بار بار آتی ہے اور پھل دار درختوں پر سے تر وتازہ کھجور اپنی چونچ میں لے کر اُس خشک درخت پر جاتی ہے۔

ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ میں نے دس مرتبہ اُس چڑیا کو لے جاتے دیکھا، تو مجھے یہ خیال ہوا کہ اس پر چڑھ کر دیکھوں کہ یہ چڑیا اُس کھجور کو کیا کرتی ہے۔

میں نے اُس درخت کی چوٹی پر جا کر دیکھا کہ وہاں ایک اندھا سانپ منہ کھولے پڑا ہے اور یہ چڑیا وہ تر وتازہ کھجور اس کے منہ میں ڈال دیتی ہے۔

مجھے یہ دیکھ کر اس قدر عبرت ہوئی کہ میں رونے لگا۔ میں نے کہا میرے مولا! یہ سانپ جس کے مارنے کا حکم تیرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیا، تُو نے جب یہ اندھا ہو گیا، تو اس کو روزی پہنچانے کے لیے چڑیا کو مقرر کر دیا اور میں تیرا بندہ، تیری توحید کا اقرار کرنے والا۔ تُو نے مجھے لوگوں کے لوٹنے پر لگا دیا؟

اس کہنے پر میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ میرا دروازہ توبہ کے لیے کھلا ہوا ہے۔ میں نے اسی وقت اپنی تلوار توڑ ڈالی، جو لوگوں کو لوٹنے میں کام دیتی تھی اور اپنے سر پر خاک ڈالتا ہوا قالۃً اقالۃً (درگذر درگذر) چِلاّنے لگا۔ مجھے غیب سے آواز آئی کہ ہم نے درگذر کر دیا، درگذر کر دیا۔

میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، وہ کہنے لگے: تجھے کیا ہو گیا؟ میں نے کہا کہ میں مہجور تھا، اب میں نے صلح کر لی۔

یہ کہہ کر میں نے سارا قصہ ان کو سنایا، وہ کہنے لگے کہ ہم بھی صلح کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر سب نے اپنی اپنی تلواریں توڑ دیں اور سب لوٹ کا سامان چھوڑ کر ہم احرام باندھ کر مکہ کے ارادہ سے چل دیئے۔

تین دن چل کر ایک گاؤں میں پہنچے، تو ایک اندھی بڑھیا ملی۔ اس نے ہم سے میرا نام لے کر پوچھا کہ تم میں اِس نام کا کوئی کردی ہے؟

لوگوں نے کہا کہ ہے۔ اُس نے کچھ کپڑے نکالے اور یہ کہا کہ تین دن ہوئے میرا لڑکا مر گیا۔ اُس نے یہ کپڑے چھوڑے۔ میں تین دن سے روزانہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ رہی ہوں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُس کے کپڑے فلاں کردی کو دے دو۔

وہ کردی کہتے ہیں کہ وہ کپڑے میں نے لے لئے اور ہم سب نے ان کو پہنا۔

اس قصہ میں دونوں چیزیں قابلِ عبرت ہیں۔ اندھے سانپ کی الله جل شانہ کی طرف سے روزی کا سامان اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کپڑوں کا عطیہ۔

جب الله تعالیٰ کسی شخص کی مدد کرنا چاہے، تو اس کے لیے اسباب پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ سارے اسباب غنا اور فقر کے، وہی پیدا کرتا ہے اور سچی توبہ کی برکت سے حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کپڑوں کا اعزاز خود ایک قابلِ فخر چیز ہے اور جلدی کی موت سے غنا کے حاصل ہونے کی ایک مثال ہے اور بہت سے واقعات مرتے وقت وصیتوں کے تو اکثر سننے میں آئے کہ میرے سامان میں سے اتنا فلاں شخص کو دے دیں۔ (فضائلِ صدقات، ص 316-317)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۰

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہنسنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ اور …