صلحِ حدیبیہ اور ابو جندل اور ابو بصیر رضی اللہ عنہما کا قصہ
سن ۶ ہجری میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے مکہ تشریف لے جارہے تھے، کفارِ مکہ کو اس کی خبر ہوئی اور وہ اس خبر کو اپنی ذلت سمجھے، اس لیے مزاحمت کی اور حدیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکنا پڑا۔
جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم ساتھ تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنا فخر سمجھتے تھے، لڑنے کو تیار ہو گئے؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کی خاطر سے لڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا اور صلح کی کوشش کی اور با وجود صحابہ کی لڑائی پر مستعدی اور بہادری کے، حضور اکرم صل اللہ علیہ سلم نے کفار کی اس قدر رعایت فرمائی کہ ان کی ہر شرط کو قبول فرما لیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس طرح دب کر صلح کرنا بہت ہی نا گوار تھا؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے کیا ہو سکتا تھا کہ جاں نثار تھے اور فرماں بردار، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادروں کو بھی دبنا پڑا۔
صلح میں جو شرطیں طے ہوئیں، ان شرطوں میں ایک یہ شرط بھی تھی کہ کافروں میں سے جو شخص اسلام لائے اور ہجرت کرے، مسلمان اس کو مکہ واپس کر دیں اور مسلمانوں میں سے خدا نخواستہ، اگر کوئی شخص مرتد ہو کر چلا آئے، تو وہ واپس نہ کیا جائے۔
یہ صلح نامہ ابھی تک پورا لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے، جو اسلام لانے کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر رہے تھے اور زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، اسی حالت میں گرتے پڑتے، مسلمانوں کے لشکر میں اس اُمید پر پہنچے کہ ان لوگوں کی حمایت میں جا کر اس مصیبت سے چھٹکارا پاؤں گا۔
ان کے باپ سہیل نے جو اس صلح نامہ میں کفار کی طرف سے وکیل تھے اور اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، فتح مکہ میں مسلمان ہوئے، انہوں نے صاحب زادے کے طمانچے مارے اور واپس لے جانے پر اصرار کیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابھی صلح نامہ مرتب بھی نہیں ہوا، اس لیے ابھی پابندی کس بات کی؟ مگر انہوں نے اصرار کیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی مجھے مانگا ہی دے دو؛ مگر وہ لوگ ضد پر تھے، نہ مانا۔
ابو جندل رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو پکار کر فریاد بھی کی کہ میں مسلمان ہو کر آیا اور کتنی مصیبتیں اٹھا چکا! اب واپس کیا جا رہا ہوں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دلوں پر جو گذر رہی ہوگی، اللہ ہی کو معلوم ہے؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے واپس ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی فرمائی اور صبر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ عنقریب حق تعالی شانہ تمہارے لیے راستہ نکالیں گے۔
صلح نامہ کے مکمل ہو جانے کے بعد ایک دوسرے صحابی ابو بصیر رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔ کفار نے اُن کو واپس بلانے کے لیے دو آدمی بھیجے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب وعدہ واپس فرما دیا۔
ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے عرض بھی کیا کہ یا رسول اللہ! میں مسلمان ہو کر آیا۔ آپ مجھے کفار کے پنجے میں پھر بھیجتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی صبر کرنے کو ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ عنقریب تمہارے واسطے راستہ کھلےگا۔ یہ صحابی ان دونوں کافروں کے ساتھ واپس ہوئے۔
راستہ میں ان میں سے ایک سے کہنے لگے کہ یار، تیری یہ تلوار تو بڑی نفیس معلوم ہوتی ہے۔ شیخی باز آدمی ذرا سی بات میں پھول ہی جاتا ہے۔ وہ نیام سے نکال کر کہنے لگا کہ ہاں، میں نے بہت سے لوگوں پر اس کا تجربہ کیا۔ یہ کہہ کر تلوار ان کے حوالہ کر دی۔ انہوں نے اسی پر اس کا تجربہ کیا۔
دوسرا ساتھی یہ دیکھ کر کہ ایک کو تو نمٹا دیا، اب میرا نمبر ہے، بھاگا ہوا مدینہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرا ساتھی مر چکا ہے، اب میرا نمبر ہے۔
اس کے بعد ابو بصیر رضی اللہ عنہ پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اپنا وعدہ پورا فرما چکے کہ مجھے واپس کر دیا اور مجھ سے کوئی عہد ان لوگوں کا نہیں ہے، جس کی ذمہ داری ہو، وہ مجھے میرے دین سے ہٹاتے ہیں، اس لیے میں نے یہ کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑائی بھڑکانے والا ہے، کاش کوئی اس کا معین ومددگار ہوتا۔
وہ اس کلام سے سمجھ گئے کہ اب بھی اگر کوئی میری طلب میں آئےگا، تو میں واپس کر دیا جاؤں گا، اس لیے وہ وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے، ایک جگہ آ پڑے۔
مکہ والوں کو اس قصہ کا حال معلوم ہوا، تو ابو جندل رضی اللہ عنہ بھی، جن کا قصہ پہلے گزرا، چھپ کر وہیں پہنچ گئے۔ اسی طرح جو شخص مسلمان ہوتا، وہ اُن کے ساتھ جا ملتا۔
چند روز میں یہ ایک مختصر سی جماعت ہو گئی، جنگل میں جہاں نہ کھانے کا کوئی انتظام، نہ وہاں باغات اور آبادیاں، اس لیے ان لوگوں پر جو گزری ہوگی، وہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے؛ مگر جن ظالموں کے ظلم سے پریشان ہو کر یہ لوگ بھاگتے تھے، اُن کا ناطقہ بند کر دیا۔
جو قافلہ ادھر کو جاتا، اس سے مقابلہ کرتے اور لڑتے؛ حتی کہ کفارِ مکہ نے پریشان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عاجزی اور منت کر کے اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر آدمی بھیجا کہ اس بے سری جماعت کو آپ اپنے پاس بلا لیں کہ یہ معاہدہ میں تو داخل ہو جائیں اور ہمارے لیے آنے جانے کا راستہ کھلے۔
لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اجازت نامہ جب ان حضرات کے پاس پہنچا ہے، تو ابو بصیر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں گرفتار تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا والا نامہ ہاتھ میں تھا کہ اسی حالت میں انتقال فرمایا (رضی اللہ عنہ وارضا ہ)۔
ف: آدمی اگر اپنے دین پر پکا ہو؛ بشرطیکہ دین بھی سچا ہو، تو بڑی سے بڑی طاقت اس کو نہیں ہٹا سکتی اور مسلمان کی مدد کا تو اللہ کا وعدہ ہے؛ بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۱۲-۱۳)