حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی‎ ‎

حجۃ الوداع کے موقع پر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیمار تھے اور انہیں اپنی وفات کا اندیشہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

ولعلك تخلف حتى ينفع بك أقوام ويضر بك آخرون

تم ضرور زندہ رہو گے؛ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو آپ کی وجہ سے فائدہ پہنچےگا اور بہت سے لوگوں کو آپ کی وجہ سے نقصان پہنچےگا۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۶۲۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر قادسیہ کی سر زمین کی فتح کی طرف اشارہ تھی جس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور کفار کو نقصان پہنچا۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر فتحِ قادسیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی

حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تھے اور انہیں اپنی وفات کا اندیشہ تھا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے، تو وہ رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان  سے پوچھا: کیوں رو رہے ہو؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ میں اس جگہ فوت ہو جاؤں، جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی اور یہاں فوت یو جانے سے میری ہجرت کا ثواب ضائع ہو جائےگا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صحت یابی کے لیے تین مرتبہ یہ دعا فرمائی: اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما۔

پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے، جس کی حالت اچھی ہے (یعنی وہ خوشحال ہو)۔ کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر سکتا ہوں (کہ میری وفات کے بعد صدقہ کر دیا جائے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا: کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں (کہ میری وفات کے بعد صدقہ کر دیا جائے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ کیا میں اپنے آدھے مال کی وصیت کر سکتا ہوں (کہ میری وفات کے بعد صدقہ کر دیا جائے)؟ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں۔

آخر کار حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں (کہ میری وفات کے بعد صدقہ کر دیا جائے)؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تم ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو؛ لیکن ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ درحقیقت جو کچھ تم اپنے مال میں سے صدقہ دیتے ہو، وہ صدقہ ہے اور جو کچھ تم اپنے ماتحتوں پر خرچ کرتے ہو، وہ صدقہ ہے اور جو کچھ تمہاری بیوی تمہارے مال میں سے خرچ کرتی ہے، وہ صدقہ ہے اور اپنے اہل وعیال کو خوشحال چھوڑنا (تمہاری وفات کے بعد) اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں (غربت کی حالت میں) چھوڑ دو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگیں۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ضرور زندہ رہوگے؛ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو آپ کی وجہ سے فائدہ پہنچےگا اور بہت سے لوگوں کو آپ کی وجہ سے نقصان پہنچےگا۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۶۲۸)

بعض محدثین کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر قادسیہ کی سر زمین کی فتح کی طرف اشارہ تھی جس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور کفار کو نقصان پہنچا۔

Check Also

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے محبوب لوگوں میں سے ایک‎ ‎

سأل سيدنا عمرو بن العاص رضي الله عنه ذات مرة فقال: يا رسول الله، أي …