اتباع سنت کا اہتمام – ۷

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ الله علیہ

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ الله علیہ سید تھے یعنی آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خاندان میں سے تھے اور جلیل القدر عالمِ دین تھے۔ آپ 1296ھ (1879) میں پیدا ہوئے اور 1377ھ (1957) میں 81 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

آپ دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے اور آپ کو دار العلوم دیوبند میں 32 سال تک تدریس کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس عرصے میں تقریباً 3856 طلبہ نے آپ کے ما تحت تعلیم حاصل کی۔

الله تعالیٰ نے آپ کو ایسی قبولیت عطا فرمائی تھی کہ آج اگر کوئی شخص دنیا کے تقریباً کسی بھی ملک کا سفر کرے، تو اسے وہاں ایسے علماء ملیں گے، جن کی سندِ حدیث بالواسطہ یا بلا واسطہ حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ تک پہنچتی ہے۔

الله تعالیٰ نے حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کو بہت سے قابل تعریف اور مثالی اوصاف سے نوازا تھا۔ ان میں سے آپ کی ایک نمایاں صفت یہ تھی کہ آپ زندگی کے تمام شعبوں میں اہتمام اور پابندی کے ساتھ سنت پر عمل کرتے تھے۔

ذیل میں چند واقعات ذکر کیے جارہے ہیں، جن سے سنت نبوی سے آپ کی گہری محبت ظاہر ہوتی ہے:

نماز میں مسنون قرائت

حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ نماز میں مسنون سورتوں کی تلاوت کا خاص طور پر اہتمام فرماتے تھے؛ چنانچہ آپ نمازِ فجر میں طوال مفصل سورتوں کی تلاوت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے، اسی طرح آپ نمازِ عشاء میں اوساط مفصل اور نمازِ مغرب میں قصار مفصل سورتوں کی تلاوت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کا مسنون قراءت پر اہتمام اتنا زیادہ تھا کہ اگر آپ کسی مسجد میں نماز ادا کرتے اور اس مسجد کے امام نے مسنون قراءت نہیں پڑھی، تو آپ نماز کے بعد ان کے پاس جاتے اور انہیں مسنون قراءت کی ترغیب دیتے۔

دوسروں کو آرام پہنچانا

ایک موقع پر حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ ٹرین کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔ اتفاق سے ٹرین کے اسی ڈبے میں حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کے ساتھ ایک ہندو بیٹھا ہوا تھا۔

سفر کے دوران حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ نے دیکھا کہ وہ ہندو کھڑا ہوا، اس ڈبے سے نکلا اور پھر واپس آیا۔ اس ہندو نے چند بار ایسا کیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بے چین تھا۔

حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ اس ہندو نے جواب دیا: مجھے بیت الخلا استعمال کرنے کی ضرورت ہے؛ لیکن بیت الخلا انتہائی گندہ ہے، اس لیے اس کو استعمال کرنے میں مجھے دقّت ہو رہی ہے۔

یہ سن کر حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کچھ دیر بیٹھے رہے اور کچھ نہیں کہا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے، پھر آپ آہستہ آہستہ بیت الخلاء کے پاس پہنچے، اس میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر دیا۔ دروازہ بند کرنے کے بعد آپ نے خود بیت الخلا صاف کیا۔

اس کے بعد آپ باہر آئے اور اس ہندو سے کہا: میں ابھی بیت الخلا سے آیا ہوں اور اب وہ بالکل صاف ہے۔

اس طرح حضرت مدنی رحمۃ الله علیہ نے اس ہندو کو آرام پہونچایا اور اس کے سامنے یہ ظاہر بھی نہیں کیا کہ آپ نے خود بیت الخلا کو صاف کیا ہے۔

مسلمان بھائی کی فکر

ہندوستان کے صوبہ یوپی میں ایک عالم تھے۔ وہ عالم حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کے شاگرد اور مرید تھے اور ان کا حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ سے بڑا گہرا تعلق تھا۔

ایک دفعہ وہ عالم سخت بیمار ہوئے۔ ان کی حالت اس حد تک بگڑ گئی تھی کہ ان کے اہل خانہ کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ کسی بھی وقت انتقال کر سکتے ہیں۔

اس حالت میں ان کے بچوں نے حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کو خط لکھا کہ حضرت! ہم آپ کو ایک ایسی چیز کے بارے میں مطلع کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں، جو ہمارے لیے انتہائی تشویش ناک اور پریشان کن ہے۔

ہمارے والد بہت بیمار ہیں اور لگتا ہے کہ موت کے دہانے پر ہیں؛ مگر جو چیز ہمیں پریشان کر رہی ہے، وہ یہ ہے کہ زندگی کے بالکل آخری مرحلہ میں ان کا برتاؤ عجیب وغریب ہے۔

جب بھی ہم ان کے پاس جاتے ہیں، تو وہ صرف دولت کی بات کرتے ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ فلاں فلاں جائیداد کا کیا ہوا؟ اس سے کتنی آمدنی آ رہی ہے؟ فلاں فلاں کو اتنی رقم ادھار دی تھی، کیا اس نے رقم واپس کر دی ہے؟

ان کی ان باتوں سے ہم بہت پریشان ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہیں اور ان کا دل ودماغ صرف دنیا میں مشغول ہے۔

خط پڑھ کر حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ بہت زیادہ فکر مند ہو گئے؛ چنانچہ جیسے ہی درس سے فارغ ہوئے، آپ درس گاہ سے نکلے اور فوراً ٹرین اسٹیشن چل دئے۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کہیں تشریف لے جا رہے ہیں، چند طلبہ اور اساتذہ جن کی تعداد تقریباً دس تھی، حضرت کے ساتھ ہو گئے۔

حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ جب اس عالم کے گھر پہنچے، تو ان سے کوئی گفتگو نہیں فرمائی، کوئی تنبیہ نہیں فرمائی، زہد کے موضوع پر کوئی بیان نہیں فرمایا، نہ کوئی حدیث سنائی؛ بلکہ گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ نے ان سے صرف خیریت پوچھی اور پھر تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھے رہے۔

اس دوران وہاں جتنے حاضرینِ مجلس تھے، وہ سن سکتے تھے کہ اس گھر کی چھت، دیوار، دروازے، کھڑکیاں، ہر چیز سے ذکر الله کی آواز آ رہی تھی۔ یہ کرامت تھی، جس کو الله تعالیٰ نے حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا۔ اس کے بعد حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ واپس تشریف لے گئے۔

چند دنوں بعد اس عالم کے بیٹے نے حضرت مولانا مدنی رحمۃ الله علیہ کو ایک اور خط لکھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ حضرت! آپ کی تشریف آوری کے بعد سے ہمارے والد صاحب کی حالت بدل گئی ہے۔ ہر وقت ان کا دل ودماغ ذکر الله میں مشغول ہے اور الله تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …