باغِ محبّت (پچیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام میں خیر خواہی کی اہمیّت

اسلام کی تمام تعلیمات میں سے ہر تعلیم انتہائی دل آویز اور خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے۔ بڑوں کا ادب واحترام کرنا، چھوٹوں پر شفقت ومہربانی کرنا اور والدین اور عزیز واقارب کے حقوق کو پورا کرنا اور ان کے علاوہ اسلام کی دیگر تعلیمات سب اسلام کی خوبصورتی کی نشانیاں ہیں۔ لیکن ان تمام تعلیمات کی روح حضور صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف میں پائی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الدین النصیحة

دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔

اس حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا برتاؤ کریں۔ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ خیر خواہی کا برتاؤ کریں ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی ان کے ساتھ خیر خواہی کا برتاؤ کریں۔

ایک دوسری حدیث شریف میں ہمارے آقا ومولی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”لوگوں کے لئے وہ پسند کرو، جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔“ (سنن ترمذی)

دوسروں کے لئے خیر خواہی کرنا اور رحم دلی سے پیش آنا ایمان کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے؛ لہذا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ: تم ہرگز (کامل) مؤمن نہیں بنوگے؛ جب تک کہ تم آپس میں رحم و مہربانی کا برتاؤ کرو۔

صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! لوگوں پر ہم رحم ومہربانی کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میری مراد یہ نہیں ہے کہ تم اپنے قریب دوستوں اور جن سے تم محبت کرتے ہو تم ان پر رحم کرو؛ بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تم تمام لوگوں پر رحم ومہربانی کرو جس طرح تم اپنے قریب دوستوں پر کرتے ہو۔ (مجمع الزوائد)

صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اس نصیحت کو نہایت مضبوطی سے پکڑ لیا اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اس پر عمل کیا؛ بعض صحابہ کرام کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک اور برتاؤ کریں گے۔ (صحیح البخاری)

ان صحابہ کرام میں سے ایک نمایاں ہستی حضرت جریر بن عبد الله بجلی رضی الله عنہ تھے۔

انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت پر کتنی مضبوطی اور پابندی سے عمل کیا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔

گھوڑے کی خریداری

ایک مرتبہ حضرت جریر بن عبد الله رضی الله عنہ اپنے غلام کے ساتھ گھوڑے کی خریداری کے لئے بازار گئے۔ حضرت جریر رضی الله عنہ نے ایک گھوڑے کو دیکھا جو آپ کو پسند آیا، تو آپ نے غلام کو بھیجا تاکہ وہ اس کو خرید لے۔ غلام نے گھوڑے کے مالک سے کہا: یہ گھوڑا مجھے تین سو درہم میں دے دو۔ گھوڑے کے مالک نے انکار کیا اور کہا کہ گھوڑے کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ پھر غلام نے اس کے ساتھ بھاؤ تاؤ کیا؛ لیکن وہ راضی نہیں ہوا۔ جب وہ دونوں ایک دام پر متفق نہیں ہوئے، تو بالآخر حضرت جریر بن عبد الله رضی الله عنہ کے غلام نے اس سے کہا: تم میرے آقا کے پاس چلو۔ گھوڑے کا مالک راضی ہو گیا پھر وہ دونوں حضرت جریر بن عبد الله رضی الله عنہ کے پاس آئے۔

جب وہ حضرت جریر رضی الله عنہ کے پاس پہونچے، تو غلام نے ان سے پورا قصہ بیان کیا کہ میں نے اس گھوڑے کو خریدنے کے لئے تین سو درہم کی پیش کش کی؛ لیکن گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ پھر مالک نے حضرت جریر رضی الله عنہ سے پوچھا ! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس گھوڑے کی قیمت تین سو درہم ہے؟ حضرت جریر رضی الله عنہ نے کہا: نہیں، آپ کے گھوڑے کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ پھر حضرت جریر رضی الله عنہ نے اس سے گھوڑے کی قیمت پوچھی اور آخر کار آپ نے وہ گھوڑا سات یا آٹھ سو درہم میں خریدا۔ جب بیع کا معاملہ پورا ہو گیا، تو آپ نے اپنے غلام کو اس بات پر تنبیہ کی کہ تم نے وہ گھوڑا کم قیمت کے بدلہ خریدنے کی کوشش کیوں کی، تم ایک مسلمان آدمی کو میرے پاس لیکر آئے جو مجھ سے دام کی شکایت کر رہا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں نے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ میں ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا۔ (المعجم الکبیر)

بائع اور مشتری کو اختیار دینا

حضرت جریر رضی الله عنہ کے پوتے امام ابو زرعہ رحمہ الله اپنے دادا حضرت جریر رضی الله عنہ کا مندرجہ ذیل واقعہ نقل کیا:

جب حضرت جریر رضی الله عنہ کوئی چیز بیچتے یا خریدتے، تو خریدنے والے یا بیچنے والے سے کہتے: بےشک ہم نے جو چیز تم سے لی ہے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو ہم نے تم کو دی ہے؛ لہذا ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر آپ اس بیع کو فسخ کرنا (توڑنا) چاہتے ہیں، تو ہم آپ کو فسخ کرنے کا (توڑنے کا) اختیار دیتے ہیں۔ (ابو داؤد)

جہاد کے لئے نکلنا

حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے دورِ خلافت میں ایک لشکر تیار ہو رہا تھا اور اس وقت حضرت جریر رضی الله عنہ بیمار تھے، تو حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت جریر رضی الله عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی بیماری کی وجہ سے میں نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت دی ہے۔

خط ملنے کے بعد حضرت جریر رضی الله عنہ نے یہ جواب لکھا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی کہ میں مسلمانوں کے امیر کی بات سنوں گا اور اس کی اطاعت کروں گا اور میں تمام مسلمانوں کے لئے خیر خواہی کروں گا۔

لہذا اگر میں اس بیماری سے اچھا ہو جاؤں، تو میں جہاد کے لئے نکلوں گا اور اگر میں اچھا نہ ہو جاؤں، تو میں کسی کو اپنی جگہ میں بھیجوں گا اور اس کی مدد اور امداد کروں گا (یعنی میں اس کو مال اور ساز وسامان دوں گا)؛ تاکہ وہ لشکر میں میرے قائم مقام ہو جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17779


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد دنیا میں دین قائم کرنے کے …