امت کا سب سے عظیم انعام
الله سبحانہ وتعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلاۃ وسلام کو ایک ایسا سمندر عطا کیا ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ہے۔ یہ سمندر انواع واقسام کے ہیرے، جواہرات، موتیوں اور گراں قدر خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ اس سمندر میں غوطہ لگاتا رہے اور قیمتی چیزیں نکالتا رہے، وہ اتنا زیادہ فائدہ اٹھائےگا۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا پانی کبھی بھی خشک نہیں ہوگا؛ بلکہ یہ انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ پہونچانے والا ہے اور ہر قسم کی سعادتوں سے نوازنے والا ہے۔ یہ سمندر کونسا سمندر ہے؟ یہ سمندر قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی امّت پر الله سبحانہ وتعالیٰ کا سب سے عظیم انعام ہے۔ یہ الله تعالیٰ کا کلام ہے اور دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے۔
جب تک امّت قرآن کریم کی تعلیمات پر قائم رہےگی اور اس کے حقوق کو ادا کرتی رہےگی۔ ”قرآن کریم“ ان کے لئے دنیا اور قبر میں نور اور روشنی کا ذریعہ بنےگا۔ نیز قیامت کے دن میدان حشر میں ان کے ساتھ رہےگا، یہاں تک کہ ان کو جنّت میں لے جائےگا۔
گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا
حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ جس گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، اس گھر میں الله تعالیٰ کی ایسی برکتیں ہوتی ہیں کہ فرشتے وہاں بکثرت آتے ہیں اور اس گھر میں الله تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کی حدیث میں منقول ہے کہ ”جس گھر میں قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے اس گھر کے اوپر نور کا خیمہ ہوتا ہے جس سے آسمان والے (فرشتے) رہنمائی حاصل کرتے ہیں، جس طرح روشن ستاروں کے ذریعہ گہرے سمندروں اور صحرا وبیابان میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے (یعنی مسافر ان ستاروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں)۔ [۱]
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے وہ گھر اہل خانہ کے لئے وسیع ہو جاتا ہے (یعنی وہ تلاوت اہل خانہ کے لئے برکات حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے)، اس میں فرشتے آتے ہیں اور شیطان اس سے بھاگ جاتے ہیں اور اس میں خیر وبرکت بڑھ جاتی ہے اور وہ گھر جس میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی ہے، اس گھر میں (اہل خانہ کے لئے) زندگی تنگ ہو جاتی ہے، فرشتے اس گھر سے نکل جاتے ہیں اس میں شیطان کا بسیرا ہو جاتا ہے اور وہ گھر خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ [۲]
رات کا تلاوت کے مخصوص وقت کا انتظار کرنا
ایک روایت میں وارد ہے کہ جو شخص قرآن پاک کا علم حاصل کرتا ہے (یا قرآن پاک کے کسی حصہ کا علم حاصل کرتا ہے) پھر وہ رات کے کسی وقت میں اس قرآن کو نفل نماز میں پڑھتا ہے، تو وہ رات آنے والی رات کو خبر دیتی ہے کہ تم اس بندہ کے قرآن پاک کے پڑھنے کے اس مخصوص وقت کے لئے انتظار کرو اور تم اس کے ساتھ اچھا برتاو کرو (تاکہ وہ بندہ فرحت وانبساط کے ساتھ نماز میں تلاوت وعبادت کر سکے)۔
موت کے بعد قرآن پاک کی برکتیں
جس طرح انسان قرآن پاک کی برکتوں سے اپنی دنیوی زندگی میں فیضیاب ہوتا ہے، اسی طرح وہ قرآن پاک کی برکتوں سے آخرت میں بھی مستفید ہوتا ہے۔ قرآن پاک انسان کو قبر اور آخرت میں فائدہ پہونچاتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اس کو جنّت میں داخل کرا دیتا ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب صاحب قرآن انتقال کر جاتا ہے، تو نور کا خیمہ (جو اس کے گھر کو اس کی زندگی میں منوّر کرتا تھا) زمین سے اٹھا لیا جاتا ہے، فرشتے آسمان سے اس نور کو تلاش کر کے دیکھتے ہیں؛ لیکن انہیں وہ نور نظر نہیں آتا ہے۔
اس کے انتقال کے بعد جب اس صاحب قرآن کی روح آسمان تک پہونچتی ہے، تو ہر آسمان کے فرشتے اس سے ملاقات کرتے ہیں اور وہ اس سے خوش ہو کر اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں پھر وہ (روح) ان فرشتوں سے ملتی ہے، جو اس (روح) کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔ پھر وہ سب فرشتے اس کے لئے قیامت کے دن تک استغفار کرتے ہیں۔
قبر میں حفاظت
ایک روایت میں وارد ہے کہ جب صاحب قرآن کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کے گھر والے اس کی تجہیز وتکفین کے لئے تیاری کرتے ہیں، تو اس وقت قرآن مجید انتہائی خوب صورت شکل میں اس کے پاس آتا ہے اور اس کے سرہانے کھڑا ہو جاتا ہے، (پھر وہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کو تسلّی دیتا ہے)؛ اور جب اس کو اپنے کفن میں رکھا جاتا ہے، تو قرآن مجید اس کے کفن میں اس کے ساتھ داخل ہو جاتا ہے اور اس کے سینے کے ساتھ لگ جاتا ہے۔
جب اس شخص کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور مٹی اس پر ڈال دی جاتی ہے اور اس کے تمام دوست واحباب اس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، تو منکر اور نکیر اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو قبر میں بٹھاتے ہیں، اس وقت بھی قرآن مجید اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کے اور منکر نکیر کے درمیان آتا ہے۔
تو وہ دونوں فرشتے قرآن مجید سے کہتے ہیں: تم ایک طرف ہو جاؤ؛ تاکہ ہم اس سے سوال کر سکیں، تو قرآن مجید ان کو جواب دیتا ہے اور کہتا ہے: میں یہاں سے ہرگز نہیں ہٹوں گا، کعبہ کے رب کی قسم ! یہ بندہ دنیا میں میرا ساتھی اور دوست تھا؛ لہذا میں کسی صورت میں اسے نہیں چھوڑوں گا، اگر تم دونوں کو کسی بات کا حکم دیا گیا ہے، تو تم وہ کام کر لو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے؛ لیکن مجھے یہاں چھوڑ دو؛ تاکہ میں اس کے ساتھ رہوں؛ کیونکہ میں اس سے اس وقت تک الگ نہیں ہوں گا، جب تک میں اسے جنّت میں داخل نہ کرا دوں۔
[۱] ورواه ابن أبي الدنيا وغيره عن عبادة بن الصامت موقوفا عليه ولعله أشبه كذا في الترغيب والترهيب للمنذري ۱/ ۲٤۵
[۲] سنن الدارمي، الرقم: ۳۳۵۲، ورجاله رجال البخاري إلا معاذ بن هانئ وحفص بن عنان وكلاهما ثقة
[۳] ورواه ابن أبي الدنيا وغيره عن عبادة بن الصامت موقوفا عليه ولعله أشبه كذا في الترغيب والترهيب للمنذري ۱/ ۲٤۵
[٤] ورواه ابن أبي الدنيا وغيره عن عبادة بن الصامت موقوفا عليه ولعله أشبه كذا في الترغيب والترهيب للمنذري ۱/ ۲٤۵
[۵] ورواه ابن أبي الدنيا وغيره عن عبادة بن الصامت موقوفا عليه ولعله أشبه كذا في الترغيب والترهيب للمنذري ۱/ ۲٤۵