سورۃ الکوثر کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿۱﴾‏ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿۲﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿۳﴾

بے شک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی ہے (۱) سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجیے (۲) بالیقین آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے (۳)

تفسیر

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿۱﴾

بے شک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی ہے (۱)

اس سورت میں الله سبحانہ وتعالیٰ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کر کے ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک ہم نے آپ کو ”کوثر“ (خیر کثیر) عطا فرمائی ہے۔

الله سبحانہ وتعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جس خیر کثیر سے سرفراز فرمایا وہ اس دنیا میں اس طرح ظاہر ہوئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا مبارک نام ہر جگہ بلند کیا جا رہا ہے، آپ کے دین کی مسلسل ترقی ہو رہی ہے اور دن بدن اسلام مضبوطی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت کے بعد چودہ سو سال کا عرصہ گزر گیا، اس کے باوجود دین اسلام دن بدن پھیل رہا ہے اور بہت سے لوگ دامنِ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سب اس خیر کثیر میں داخل ہے، جس سے الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نوازا ہے۔

مزید یہ کہ الله تعالیٰ نے ہمارے آقا ومولیٰ صلی الله علیہ وسلم کو آخرت میں بھی خیر کثیر سے نوازا ہے۔ آپ کی خیر کثیر آخرت میں اس طرح ظاہر ہوگی کہ آپ کی امّت کی تعداد دوسری تمام امتوں سے زیادہ ہوگی؛ بلکہ آپ کی امّت کی تعداد تمام امتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہوگی۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنّت ۱۲۰ صفوں میں ہوں گے۔ ان ۱۲۰ صفوں میں سے اسّی صفیی آپ کی امّت کی ہوگی یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی امّت اہل جنّت کے دو تہائی میں سے ہوں گے۔

اس کے علاوہ الله سبحانہ وتعالیٰ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو انتہائی بلند مقام ”مقام محمود“ عطا فرمائیں گے۔

”مقام محمود“ آخرت میں ایک خاص مقام اور مرتبہ ہے جو الله تعالیٰ صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کو تمام مخلوق میں سے مرحمت فرمائیں گے۔ اس خصوصی مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم تمام انسانوں کے لئے الله تعالیٰ کے سامنے سفارش کریں گے کہ ان کا حساب شروع کیا جائے۔

اسی طرح الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تمام انبیاء اور رسولوں کے امام ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے، چنانچہ قیامت کے دن سارے انبیاء اور رسول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم تمام بنی آدم کے لئے سفارش فرمائیں گے۔

اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میرے پیچھے حضرت آدم علیہ السلام ہوں گے اور ان کی ساری اولاد ہوں گی۔

الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو آخرت میں جس خیر کثیر سے سرفراز فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر بھی داخل ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس حوض کوثر سے اپنی امّت کو پانی پلائیں گے۔

اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک ہم نے آپ کو کوثر (خیر کثیر) عطا فرمائی ہے۔ لفظ کوثر کا لفظی معنی خیر کثیر ہے؛ لہذا حوض کوثر بھی اس خیر میں داخل ہے جس سے الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نوازا ہے۔

قیامت کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم کی امّت آپ کے پاس آئےگی اور آپ ان کو حوض کوثر سے پانی پلائیں گے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حوض کوثر کے برتن کی تعداد آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے، جو لوگ آپ کے دست مبارک سے حوض کوثر کا پانی پینے کا شرف حاصل کریں گے، انہیں دوبارہ کبھی بھی پیاس نہیں لگےگی۔

البتہ قیامت کے دن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کچھ لوگوں کو دیکھیں گے اور ان کو اپنی امّت میں سے سمجھیں گے؛ لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم دیکھیں گے کہ فرشتے ان کو اپنے حوض کوثر سے ہٹا کر بھگائیں گے اور ان کو آپ کے دست مبارک سے پانی پینے نہیں دیں گے۔

تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ان فرشتوں سے پوچھیں گے ”تم ان کو میرے حوض کوثر سے کیوں روک رہے ہو؟ یہ تو میری امّت میں سے ہیں۔“ فرشتے جواب دیں گے کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد کیا کیا۔ یہ لوگ دین اسلام سے پھر گئے اور نیا مذہب اختیار کر لیا۔

یہ وہ لوگ ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان تھے؛ لیکن آپ کی وفات کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے۔

الله تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کی طرح ہونے سے بچائے۔

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿۲﴾

سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجیے (۲)

پہلی آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو ان نعمتوں کی خبر دی ہے، جن سے الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو سرفراز فرمایا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو ایسی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے، جن سے الله تعالیٰ نے کسی اور انسان کو نہیں نوازا ہے۔ لہٰذا اس آیت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ ان نعمتوں کے شکریہ کے طور پر آپ نماز پڑھنے سے اور قربانی ادا کرنے سے الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو ان عظیم نعمتوں سے نوازا گیا ہے، تو ہم بھی ان نعمتوں کی خیر وبرکات سے مستفید ہوں گے آپ کی امت میں ہونے کی وجہ سے، کیونکہ نبی کی خیر وبرکت ان کی امت کے اوپر بھی جاری ہوتی ہے؛ لہذا ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم الله تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اور ہم بھی نماز پڑھیں اور قربانی ادا کریں۔

قربانی کی ایک صورت ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم الله تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانی جانور ذبح کریں، لیکن اس کے علاوہ قربانی کی اور بھی شکلیں اور صورتیں ہیں جن کا تعلق ہماری جان اور مال وغیرہ سے ہے؛ لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم ان چیزوں کو (یعنی جان ومال کو) بھی الله تعالیٰ کے دین کے لئے قربان کریں۔

قربانی کی یہ دوسری صورتیں (جو جان ومال کے متعلق ہیں) وہ ان محنتوں اور کوششوں میں داخل ہیں جن کا کرنا ہر امتی کے لئے ضروری ہے؛ تاکہ اس کو الله تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکے۔

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿۳﴾ 

بالیقین آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے (۲)

اس آیت کریمہ میں لفظ ”ابتر“ آیا ہے۔ ”ابتر“ سے مراد وہ آدمی ہے جس کی نسل اور نسب منقطع ہو گئی ہے۔

جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے صاحب زادے قاسم اور ابراھیم رضی الله عنہما کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا، تو کفار مکہ آپ کو ”ابتر“ کہہ کر طعنہ دینے لگے اور یہ کہنے لگے کہ اس آدمی کی بات چھوڑو، اس کے بارے میں ہمیں کچھ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ وہ مقطوع النسل ہے، جس طرح اس کی اولاد ختم ہو گئی، اس کا مشن بھی ختم ہو جائےگا اور اس کے انتقال کے بعد اس کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہےگا؛ کیونکہ عام طور پر انسان کا مشن اس کی اولاد (ذکور) آگے لے جاتے ہیں، تو جب اس کی اولاد ذکور نہیں ہیں، تو اس کا مشن ختم ہو جائےگا۔

لہذا مذکورہ آیت میں الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تسلّی دی ہے اور فرمایا کہ بالیقین آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے (یعنی آپ ہرگز مقطوع النسل نہیں ہوں گے)۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ الله تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے کہ آپ کا اسم گرامی، آپ کی عزت، آپ کا مشن اور وہ تمام نعمتیں جن سے الله تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے، وہ نعمتیں قیامت تک باقی رہیں گی۔

چنانچہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا میں آنے کے بعد پچھلے تمام نبیوں کی شریعتیں اور ان کی کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں اور صرف نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی شریعت اور کتاب قیامت تک باقی رہیں گی۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں الله سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کا اطمینان دلایا ہے کہ آپ کا دشمن عاص بن وائل یا کعب بن اشرف یا جس نے بھی آپ کے خلاف بات کی، وہ سب نیست ونابود ہوں گے اور ان سب کے نام ونشان ختم ہو جائیں گے، آئندہ ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہےگا۔ چنانچہ اگر قرآن کریم کی ان آیتوں کی تفسیر یا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت بیان نہ کی جاتی، تو کوئی ان لوگوں کے نام سے واقف نہیں ہوتا۔

اس کے بر عکس آپ صلی الله علیہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے چلا اور آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہےگا۔ ان شاء الله

چنانچہ قیامت سے پہلے حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا اور وہ مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے، وہ بھی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہر انسان اس وجہ سے اولاد چاہتا ہے کہ اس کی موت کے بعد اس کی اولاد اس کے کام اور مشن کو آگے لے جائے؛ تاکہ اس کا کام اور مشن دنیا میں اس کی موت کے بعد مزید پھیل سکے؛ یہاں تک کہ وہ آخرت میں زیادہ سے زیادہ ثواب مل سکے۔

لہذا جب ہم اس بات کو اس پہلو سے دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت آپ کی روحانی اولاد ہیں اور آپ کے مشن کو آگے لے جاتے ہیں، کیونکہ وہ آپ کی تصدیق کرتی ہیں، آپ کے دین پر عمل کرتی ہیں، آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کی سعی کرتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہےگا اور بڑھتا رہےگا۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ پورے عالم میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ اپنے آقا ومولیٰ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے لئے اپنی جان ومال، عزت وآبرو ہر وقت قربان کرتے ہیں اور ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کی سب سے افضل شخصیت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لہذا الله تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ عزت عطا فرمائی اور الله تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کے نام ونشان کو نیست ونابود کر دیا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے۔

اس سورت سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ اگر ہم کوئی کار خیر دیکھیں، تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کار خیر میں تعاون کریں اور ہر ممکن طریقہ سے اس کار خیر کو پھیلائیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہمارا بھی اس کار خیر میں حصہ ہوگا۔

اس کے بر خلاف اگر ہم اس کار خیر پر اعتراض کریں گے اور اس کے لوگوں پر تنقید کریں گے اور ان کو روکنے کی کوشش کریں گے تو ہم عاص بن وائل وغیرہ کی طرح ہوں گے، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش کی اور اپنا دین پھیلانے کی وجہ سے آپ کو طعنہ دیا ہے۔

اگر ہم عاص بن وائل وغیرہ کی پیروی کریں گے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمن تھے، تو اس کی طرح ہمارا نام ونشان بھی مٹ جائےگا۔

لیکن اگر ہم سنّت نبوی کی پیروی کریں گے اور ہر ممکن طریقہ سے دین اور سنّت کی اشاعت کرنے والوں کا تعاون کریں گے، تو الله تعالیٰ ہمارا نام ہماری وفات کے بعد بھی زندہ رکھیں گے اور ہمارے اچھے کاموں کو پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے۔

Check Also

سورہ ناس کی تفسیر

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎﴿١﴾‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎﴿٢﴾‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎﴿٣﴾‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ‎﴿٥﴾‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎﴿٦﴾‏ …