امّت کے سامنے علاماتِ قیامت کو بیان کرنے کا مقصد
حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امّت کو قیامت کی بہت سی چھوٹی اور بڑی علامتوں سے آگاہ کیا ہے۔ ان میں بہت سی چھوٹی علامتیں گذشتہ صدیوں میں ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت سی چھوٹی علامتیں موجودہ دور میں ظاہر ہو رہی ہیں۔
علاّمہ قرطبی رحمہ الله نے فرمایا کہ آپ صلی الله عليه وسلم نے اپنی امت کو جو علاماتِ قیامت بیان فرمائی اس کی دو وجہیں ہیں:
(۱) جب امت قیامت کی کسی علامت کو دیکھے، تو وہ علامت ان کے لیے تنبیہ ہوگی کہ وہ غفلت سے بیدار ہو جائے اور دین کی طرف آجائیں۔
(۲) تاکہ امت زمانے کے فتنوں سے اپنے آپ کو بچا سکے الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے اور آخرت کی تیاری کرنے سے۔ (التعلیق الصبیح)
قیامت کی چھوٹی علامتوں میں سے جو گذشتہ صدیوں میں ظاہر ہو چکی ہیں ان میں سے بعض علامتیں مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی انگلی کے اشارہ سے چاند کا پھٹ جانا
(۲) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا وصال
(۳) حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی الله عنہم کی شہادت
(٤) حضرت عمر رضی الله عنہ کے عہد میں طاعون عمواص کا وقوع جس میں ہزاروں لوگوں کی موت ہو گئی
(۵) فتح بیت المقدس اور قیصر وکسریٰ کی حکومت کا زوال (یہ علامت حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئی)
(٦) کربلا میں حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت (یہ علامت یزید بن معاویہ رضی الله عنہ کے دور حکومت میں ظاہر ہوئی)
(۷) واقعۂ حرّہ (مدینہ منوّرہ کے باہر ایک جگہ) جس میں بہت سے صحابۂ کرام رضی الله عنہم اور تابعین عظام رحمہم الله سمیت ہزاروں لوگ قتل کئے گئے (یہ علامت یزید بن معاویہ رضی الله عنہ کے دور حکومت میں ظاہر ہوئی)
(۸) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ الله کی خلافت اور ان کا عدل وانصاف
(۹) اسلام کی ساتویں صدی میں تاتاریوں کا حملہ
(۱۰) اسلام کی نویں صدی میں محمد الفاتح رحمہ الله کے ہاتھوں پر استنبول کی فتح۔
مذکورہ بالا نشانیاں اور علامات حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق واقع ہو چکی ہیں۔
مندرجہ ذیل حدیث شریف میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے کی بعض دوسری چھوٹی نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں، اگر ہم ان نشانیوں میں غور کریں اور موجودہ دور میں امّت کے حالات کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان نشانیوں میں سے بیشتر نشانیاں آج کل پائی جا رہی ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مالِ فیئ (جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے مال) کو ذاتی مال شمار کیا جائےگا جس کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور استعمال کریں گے اور امانت کو مالِ غنیمت (جنگ کے بعد حاصل ہونے والا مال) سمجھا جائےگا (یعنی لوگ امانت میں خیانت کریں گے) اور زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائےگا، علمِ دین دین پر عمل کرنے کے واسطے حاصل نہیں کیا جائےگا بلکہ کسی اور مقصد کے لیے حاصل کیا جائےگا (یعنی دنیا کے لیے)، آدمی اپنی بیوی کی سنےگا اور ماں کی نافرمانی کرےگا۔ اپنے دوست کو قریب کرےگا اور والد کو دور کرےگا، مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی (شور و شغب ہوگا)۔ فاسق آدمی قبیلہ کا سردار بنےگا، قوم کا سربراہ گٹھیا آدمی ہوگا، آدمی کی عزت اس کی بُرائی کے ڈر کی وجہ سے کی جائےگی، گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہو جائیں گے، کُھلّم کھلا شرابیں پی جائیں گی اور ا س امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں (سلفِ صالحین) پر لعنت کریں گے (یعنی بُرا بھلا کہیں گے)، تو (ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد) انتظار کرو سرخ آندھیاں، زلزلے، لوگوں کا زمین میں دھنسنا، لوگوں کی شکلیں بگڑنا، پتھروں کی بارش ہونا اور اس قسم کی دیگر نشانیاں جو دنیا میں مسلسل ظاہر ہوں گی اور یہ نشانیاں پے در پے ظاہر ہوں گی جیسے کہ ہار جب اس کا دھاگا کاٹ دیا جائے، تو اس کی موتیاں مسلسل گرنے لگتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تمام لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے بھیجے گئے ہیں اور وہ تمام انبیاء اور رسولوں کے امام ہیں؛ لہذا جب انہوں نے ان علامتوں کے واقع ہونے کی پیشن گوئی کی ہیں، تو ان علامتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ امت کو ان فتنوں سے آگاہ کریں اور ان کو فتنوں کے سامنے نجات کا راستہ بتائے۔
الله تعالیٰ پوری امّت کی تمام گناہوں سے حفاظت فرمائے اور ان کو دین پر استقامت نصیب فرمائے۔ آمین
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18756