حج اور عمرہ
حدیث شریف میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے دین اسلام کو ایک ایسے خیمہ سے تشبیہ دی ہے، جس کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ ان ستونوں میں سے مرکزی اور سب سے اہم ستون ”شہادت“ ہے اور دوسرے ستون نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج ہیں۔ ان پانچ ستونوں میں سے سب سے آخری ستون جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ حج تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریضۂ حج کے نزول سے دین اسلام مکمل ہو چکا ہے۔ [۱]
حجۃ الوداع
سن دس ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اعلان کیا کہ وہ حج کے لئے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ سنا، تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس مبارک سفر میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے مختلف دور دراز علاقوں سے حج کی ادائیگی کے لئے سفر کیا۔ بعض محدّثین فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ [۲]
ابتدائے اسلام کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ایک جگہ جمع تھی۔
فریضۂ حج کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں صرف ایک بار حج کیا تھا اور اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ [۳]
اسی حج کے دوران نو ذی الحجّہ کو مقام عرفات میں مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔ [۴]
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امّت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل اور دین اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ حج کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ دین اسلام کی تکمیل کا اعلان حج کے موقع پر ہوا تھا۔
اسی طرح اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے رخصت ہونے والے ہیں؛ کیونکہ دین کی تکمیل کے اعلان نے واضح کر دیا کہ اس دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد پایۂ تکمیل کو پہونچ چکا ہے۔ [۵]
پوری زندگی میں ایک بار فرض
فریضۂ حج پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ جہاں اسلام کے دوسرے بنیادی ستون (نماز، زکوٰۃ اور روزہ) کی ادائیگی کی بات ہے، تو وہ ہر شخص پر ہر دن یا ہر سال میں فرض ہے، جبکہ حج کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پوری زندگی میں ایک بار اس شخص پر فرض قرار دیا ہے، جس کے پاس حج کے ادائیگی کے اسباب موجود ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو زندگی میں صرف ایک بار موقع ملتا ہے کہ وہ اپنا فرض حج صحیح طریقے سے ادا کرے۔ [٦]
لہذا جو انسان اس موقع سے اچھی طرح فائدہ اٹھائے اور حج کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کرے، تو وہ ان شاء اللہ اس حال میں اپنے گھر لوٹےگا کہ اس کا حج مقبول ہوگا اور اس کو بے پناہ اجر وثواب ملےگا۔ دوسری طرف جو شخص اس موقع سے اچھی طرح فائدہ نہ اٹھائے اور آداب واحکام کی رعایت کے ساتھ حج ادا نہ کرے، تو اس کا فرض حج ہمیشہ ناقص رہےگا اور اس کی کسی بھی صورت میں تلافی نہیں ہو سکتی ہے؛ اگر چہ اس کو بار بار نفل حج ادا کرنے کی سعادت میسّر ہوگی، لیکن فرض حج دوبارہ نہیں کر سکےگا۔
[۱] مثلت حالة الإسلام مع أركانه الخمسة بحالة خباء أقيمت على خمسة أعمدة وقطبها الذي تدور عليها الأركان هي شهادة أن لا إله إلا الله وبقية شعب الإيمان كالأوتاد للخباء (شرح المشكاة للطيبي ۲/٤۳۷)
[۲] واختلف في عددهم ففي حاشية المشكاة عن اللمعات ورد في بعض الروايات أنهم كانوا أكثر من الحصر والإحصاء ولم يعينوا عددهم وقد بلغوا في غزوة تبوك التي هي آخر غزواته صلى الله عليه وسلم مائة ألف وحجة الوداع كانت بعد ذلك ولا بد أن يزدادوا فيها ويروى مائة وأربعة وعشر ألفا وفي رواية مائة وأربعة وعشرون ألفا والله أعلم زاد القاري وقيل مائة وثلاثون ألفا (جزء حجة الوداع صـ ۳۲)
[۳] حج رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الوجوب حجة واحدة (مقدمة جزء حجة الوداع صـ ۹)
[٤] سورة المائدة: ۳
[۵] وقال أسباط عن السدي نزلت هذه الآية يوم عرفة فلم ينزل بعدها حلال ولا حرام ورجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمات قالت أسماء بنت عميس حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الحجة فبينما نحن نسير إذ تجلى له جبريل فمال رسول الله صلى الله عليه وسلم على الراحلة فلم تطق الراحلة من ثقل ما عليها من القرآن فبركت فأتيته فسجيت عليه بردا كان علي قال ابن جريج وغير واحد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد يوم عرفة بأحد وثمانين يوما (تفسير ابن كثير ۳/۲٦)
[٦] يجب أي الحج في العمر مرة واحدة فيكون وقته العمر (تحفة الفقهاء ۱/۳۸٠)