باغِ محبّت(چوئیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ کا خدمتِ خلق

مخلوق کی خدمت خدا تعالیٰ کے یہاں ایک انتہائی محبوب اور پسندیدہ عمل ہے۔ خدمتِ خلق کا بے پناہ اجر وثواب ہے اور اس کی بہت سی فضیلتیں ہیں۔

تمام انبیاء اور رسولوں (علیہم السلام) کی زندگیوں میں یہ صفت (خدمتِ خلق) بدرجۂ اتم پائی گئی۔ چنانچہ انبیائے کرام علیہم السلام نے لوگوں کو مخلوق کے ساتھ صرف عدل وانصاف کرنے کی تاکید نہیں فرماتے تھے؛ بلکہ ان کے ساتھ احسان ورحم کرنے کا حکم بھی دیتے تھے۔

خاتم الانبیاء حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ جب آپ کو نبوت عطا کی گئی، تو آپ کو اس بات کی بہت زیادہ فکر لاحق ہوئی کہ آپ کیسے اس عظیم فریضہ کو انجام دیں گے۔

اس موقع پر حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے آپ کو مندرجہ ذیل کلمات سے تسلّی دی، جن سے اس بات کی پورے طور پر عکاّسی ہوتی ہے کہ نبوّت سے پہلے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے قلبِ مبارک میں لوگوں کی خدمت اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کا بے پناہ جذبہ اور فکر تھی۔

حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: الله کی قسم ! الله تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کریں گے، بے شک آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں اور آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور آپ ان لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں جو پریشانی میں مبتلا ہیں اور آپ معدوم (فقیر اور جن کے پاس مال نہیں) کے لئے کماتے ہیں (اور ان کی مدد کرتے ہیں) اور آپ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آپ ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو قدرتی آفات ومصائب میں دوچار ہیں۔ (صحیح البخاری)

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بابرکت صحبت میں رہتے ہوئے صحابۂ کرام رضی الله عنہم صحبتِ نبوی کے فیض سے فیض یاب ہوئے اور اخلاقِ نبوی سے سرفراز ہوئے؛ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی زندگی کے تمام شعبوں میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق وعادات ان میں سرایت کر گئے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو الله تعالیٰ کے حقوق پورا کرنے میں صرف کر دی اور لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مواقع ڈھونڈتے تھے۔

امیر المؤمنین حضرت عمر رضی الله عنہ اپنے خلافت کے زمانہ میں بسا اوقات رات کو چوکیداری کے طور پر شہر کی حفاظت بھی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی حالت میں ایک میدان میں گذر ہوا۔ دیکھا کہ ایک خیمہ بالوں کا بنا ہوا لگا ہوا ہے جو پہلے وہاں نہیں دیکھا تھا۔

اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک صاحب وہاں بیٹھے ہیں اور خیمہ سے کچھ کراہنے کی آواز آ رہی ہے۔ سلام کر کے ان صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور دریافت کیا کہ تم کون ہو۔ انہوں نے کہا ایک مسافر ہوں، جنگل کا رہنے والا ہوں۔ امیر المؤمنین کے سامنے کچھ اپنی ضرورت پیش کر کے مدد چاہنے کے واسطے آیا ہوں۔ دریافت فرمایا کہ یہ خیمہ میں سے آواز کیسی آرہی ہے۔ ان صاحب نے کہا میاں جاؤ اپنا کام کرو۔ آپ نے اصرار فرمایا کہ نہیں بتا دو کچھ تکلیف کی آواز ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ عورت کی ولادت کا وقت قریب ہے، دردِ زہ ہو رہا ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کوئی دوسری عورت بھی پاس ہے۔ انہوں نے کہا کوئی نہیں۔

آپ وہاں سے اٹھے اور مکان تشریف لے گئے اور اپنی بیوی حضرت ام کلثوم رضی الله عنہا سے فرمایا کہ ایک بڑے ثواب کی چیز مقدر سے تمہارے لئے آئی ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک گاؤں کی رہنے والی بیچاری تنہا ہے۔ اس کو دردِ زہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ہاں تمہاری صلاح ہو تو میں تیار ہوں۔ اور وہ کیوں نہ تیار ہوتیں کہ یہ بھی آخر حضرت سیّدہ فاطمہ رضی الله عنہا کی ہی صاحبزادی تھیں۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ولادت کے واسطے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہو، تیل گودڑ (کپڑے) وغیرہ لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ گھی اور دانے وغیرہ بھی ساتھ لے لو۔ وہ لے کر چلیں اور حضرت عمر رضی الله عنہ کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم رضی الله عنہا تو خیمہ میں چلی گئیں اور آپ نے آگ جلا کر اس ہانڈی میں دانے اُبالے گھی ڈالا اتنے میں ولادت سے فراغت ہو گئی۔

اندر سے حضرت ام کلثوم رضی الله عنہا نے آواز دے کر عرض کیا امیر المؤمنین اپنے دوست کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دیجئے۔ امیر المؤمنین کا لفظ جب ان صاحب کے کان میں پڑا تو وہ بڑے گھبرائے۔ آپ نے فرمایا گھبرانے کی بات نہیں۔

وہ ہانڈی خیمہ کے پاس رکھدی کہ اس عورت کو بھی کچھ کھلا دیں۔ حضرت ام کلثوم رضی الله عنہا نے اس کو کھلایا۔ اس کے بعد ہانڈی باہر دے دی۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس بدّو سے کہا کہ تم بھی کھاؤ۔ رات بھر تمہاری جاگنے میں گزر گئی۔ اس کے بعد اہلیہ کو ساتھ لے کر گھر تشریف لے آئے اور ان صاحب سے فرما دیا کہ کل آنا تمہارے لئے انتظام کر دیا جائےگا۔ جب صبح ہوئی اور وہ آیا، تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس کو کچھ توشہ دیا اور اس کو تحفہ دیا۔ (فضائل اعمال نقلاً عن تبصرۃ لإبن الجوزی اور بدایۃ والنھایۃ)

جس طریقہ سے انبیاء علیہم السلام اور صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے مخلوق کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی، الله تعالیٰ ہمیں بھی مخلوق کی خیر خواہی کی فکر عطا فرمائے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17673


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد دنیا میں دین قائم کرنے کے …