مہر کے احکام
(۱) نکاح سے پہلے مہر کی مقدار متعیّن کرنا چاہیئے۔
(۲) لڑکی کو مہر مثل دینا چاہیئے۔ مہر مثل سے مراد وہ مہر ہیں جو لڑکی کے والد کے خاندان کی عورتوں کو دیا جاتا یے۔ والد کے خاندان کی عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو لڑکی کی ہم عمر ہیں اور اس کے مماثل ہیں خوب صورتی میں (یا باکرہ ہونے میں یا ثیبہ ہونے میں)، نیز ان کا نکاح بھی تقریباً اسی وقت میں ہوا ہو، جس وقت میں لڑکی کا نکاح ہو رہا ہو۔ [۱]
(۳) اگر لڑکا مہر مثل سے کم مہر دینے کی پیشکش کرے اور لڑکی اور لڑکی کے اولیاء اس مہر کی مقدار کو قبول کر لیں اور وہ اس مقدار سے خوش ہیں، تو یہ جائز ہے۔ [۲]
(٤) اگر لڑکا مہر فاطمی دینا چاہے اور مہر فاطمی مہر مثل کے برابر ہو یا اس سے زیادہ ہو، تو یہ جائز ہے اور اگر مہر فاطمی مہر مثل سے کم ہو؛ لیکن لڑکی اور لڑکی کے اولیاء اس مہر کی مقدار سے راضی ہوں، تو یہ بھی جائز ہے۔ [۳]
(۵) مہر کی مقدار بہت زیادہ برہانا اور غلو کرنا شرعا پسندیدہ نہیں، یہ حدیث شریف کی تعلیم کے خلاف ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص عورت کو اس کے مہر مثل سے بڑھ کر بہت زیادہ مہر دے دے، تو اس کا یہ عمل خلاف سنّت ہوگا۔
اگر کوئی مہر کی مقدار محض دکھاوے کے لئے بڑھاوے، تو یہ عمل شریعت میں ممنوع اور حرام ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ خبردار مہر بڑھا کر مت ٹھہراؤ۔ اس لئے کہ اگر یہ عزت کی بات ہوتی دنیا میں اور تقوی کی بات ہوتی الله تعالیٰ کے نزدیک تو تمہارے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے۔ [۵]
(٦) اگر نکاح کے وقت مہر مقرّر نہیں کیا گیا ہو (اور نکاح سے پہلے بھی مہرکی مقدار بیان نہ کی گئی ہو، )تو بیوی کے لئے مہر مثل واجب ہوگا۔ [٦]
[۱] ويعتبر في مهر المثل أن تتساوى المرأتان في السن والجمال والمال والعقل والدين والبلد والعصر لأن مهر المثل يختلف باختلاف هذه الأوصاف وكذا يختلف باختلاف الدار والعصر قالوا ويعتبر التساوي أيضا في البكارة لأنه يختلف بالبكارة والثيوبة (الهداية ۲/۳۳۳)
[۲] [۳] وإذا تزوجها على حكمها أو حكمه أو حكم أجنبي كانت التسمية فاسدة ثم إن كان التزوج على حكم الزوج ينظر إن حكم بمهر مثلها أو أكثر فلها ذلك وإن حكم بأقل من مهر مثلها فلها مهر مثلها إلا أن ترضى بالأقل وإن كان التزوج على حكمها فإن حكمت بمهر مثلها أو أقل فلها ذلك (الفتاوى الهندية ۱/ ۳٠۳)
[۵] عن أبي العجفاء السلمي قال: قال عمر بن الخطاب: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا أو تقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من ثنتي عشرة أوقية (سنن الترمذي، الرقم:۱۱۱٤، وقال: هذا حديث حسن صحيح)
[٦] (وإن لم يسم لها مهرات أو شرط أن لا مهر لها فلها مهر المثل بالدخول والموت والمتعة بالطلاق قبل الدخول) لأن النكاح صح فيجب العوض لأنه عقد معاوضة والمهر وجب حقا للشرع على ما بينا والواجب الأصلي مهر المثل لأنه أعدل فيصار إليه عند عدم التسمية بخلاف حالة التسمية لأنهم رضوا به فإن كان أقل من مهر المثل فقد رضيت بالنقصان وإن كان أكثر فقد رضي بالزيادة قال عليه الصلاة والسلام: المهر ما تراضى عليه الأهلون (الاختيار لتعليل المختار ۳/۱٠۲)