عن أبي وائل رضي الله عنه قال: ما شهد عبد الله مجمعا ولا مأدبة فيقوم حتى يحمد الله ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم وإن كان مما يتبع أغفل مكان في السوق فيجلس فيه فيحمد الله ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: ۳٠٤۲۹، ورواته ثقات)
حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب بھی کسی مجلس یا دعوت میں شرکت کرتے، تو وہاں سے اٹھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے؛ یہاں تک کہ اگر وہ بازار بھی جاتے جہاں (عموماً) لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل رہتے ہیں، تو وہاں بیٹھتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے۔
درود شریف کی برکت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی قرب کا حصول
حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنے زمانہ کے نامور محدّث تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق اور درود شریف کے فضائل پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ”الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ“ ہے۔
حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ کے بارے میں ایک واقعہ منقول ہے کہ ان کے بھتیجے نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے چچا، حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سونے کے تخت پر تشریف فرما ہیں۔
جب انہوں نے اپنے چچا کا یہ عظیم مقام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا خصوصی قرب دیکھا، تو انہیں بہت تعجّب ہوا۔
جب قاضی عیاض رحمہ اللہ کو اپنے بھتیجے کے خواب کے بارے میں معلوم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کو بہت تعجّب ہوا ہے، تو انہوں نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھتیجے! میری کتاب ”الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ“ کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اس کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبولیت حاصل کرنے کا ذریعہ بناؤ۔
اِس طریقہ سے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنے بھتیجے کے سامنے واضح کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل کرنے کا ذریعہ میری کتاب تھی؛ کیونکہ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبّت کے واقعات سے پُر ہے۔ (بستان المحدثين ص 344)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہمہ وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر باشی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ ان سے جتنی زیادہ حدیثیں منقول ہیں، اتنی کسی اور صحابی سے منقول نہیں۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں صرف چار سال گزار نے کا موقع ملا؛ چونکہ انہوں نے سنہ ۷ ہجری میں اسلام قبول کیا اور سنہ ۱۱ہجری میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دارِ فانی سے رخصت فرما گئے؛ لیکن انہوں نے بہت زیادہ حدیثیں روایت کی ہیں۔ اسی وجہ سے لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ اتنی کم مدّت میں انہوں نے اتنی زیادہ حدیثیں کیسے یاد کر لیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات پر تعجّب ہوتا ہے کہ میں بہت زیادہ حدیثیں کیسے روایت کرتا ہوں۔ بات در اصل یہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی تجارت میں مشغول رہتے تھے اور میرے انصار بھائی کاشتکاری میں لگے رہتے تھے، جب کہ میں ہمہ وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا کرتا تھا۔ اور میں اصحابِ صفہ میں سے تھا۔ مجھے ذریعۂ معاش کی بالکل فکر نہیں رہتی تھی۔ میں ہمیشہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اور جو چیز بھی کھانے کے لیے میسّر ہو جاتی تھی، اسی پر قناعت کرتا تھا۔ بسا اوقات صرف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تھا۔ میرے علاوہ کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قوّتِ حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلا دو۔ میں نے فوراً اپنی چادر پھیلائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری چادر پر اپنے دستِ مبارک سے کچھ لکیر کھینچیں اور مجھ سے فرمایا: اس چادر کو اپنے بدن پر لپیٹ لو۔ میں نے اس کو اپنے سینے پر لپیٹ لیا۔ اس دن سے میری یہ کیفیت ہے کہ جو کچھ بھی میں نے یاد رکھنا چاہا، میں کبھی نہیں بھولا۔ (صحیح البخاری)
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ