باغِ محبّت(پندرہویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

زندگی کی قدردانی

حضرت داؤد بن دینار رحمہ الله ایک عظیم محدّث اور جلیل القدر محدّثین امام شعبہ اور امام وکیع رحمہ الله جیسی شخصیتوں کے استاذ تھے۔

آپ خراسان کے رہنے والے تھے۔ ایک مرتبہ خراسان کے باشندے انتہائی مہلک وبائی مرض میں مبتلا ہوئے۔ بہت سے لوگ اس مرض کی وجہ سے ہلاک ہو گئے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی۔ حضرت داؤد بن دینار رحمہ الله بھی اس وبائی مرض کے شکار ہو گئے اور بہت زیادہ بیمار ہو گئے؛ لیکن الله تعالیٰ نے ان کو اس وبائی مرض سے شفا عطا فرمائی اور اس بیماری کو ان کے لئے دینی ترقّی کا ذریعہ بنا دیا۔

حضرت امام داؤد بن دینار رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں مجھ پر غشی طاری ہو گئی، تو اسی حالتِ غشی میں میں نے دیکھا کہ میرے گھر کی چھت پھٹ گئی اور دو فرشتے آسمان سے اترے۔ ان میں سے ایک فرشتہ میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا فرشتہ میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔

پھر سر کے پاس بیٹھے ہوئے فرشتے نے پیر کے پاس بیٹھے ہوئے فرشتے سے کہا: اس کو ہاتھ لگاؤ اور جانچ لو، تو انہوں نے میرے پیروں کی انگلیوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: یہ بندہ اپنے ان پیروں کے ساتھ مسجد کو بہت چلتےتھے یعنی فرشتے نے حدیث شریف کی اس فضیلت کی طرف اشارہ کیا کہ جو بندہ مسجد کو پیدل چلے اس کے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔

پھر پاؤں کے پاس بیٹھے ہوئے فرشتے نے سرہانے بیٹھے ہوئے فرشتے سے کہا: اس بندہ کے بدن کو چھو کر جانچ لو، تو انہوں نے میری زبان کو چھوا اور فرمایا: اس بندہ کی زبان الله تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور ذکر سے تر ہے؛ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ قرآنِ کریم کی تلاوت میں کچھ کمی ہے گویا کہ فرشتے نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ امام داؤد بن دینار رحمہ الله اگر چہ بلند پایہ محدّث ہیں اور شب وروز خدمتِ حدیث میں مشغول ہیں؛ لیکن وہ قرآنِ کریم کی تلاوت بہت نہیں کرتے تھے؛ لہذا اس پر ان کی تنبیہ ہو گئی۔

پھر ایک فرشتے نے دوسرے سے کہا: ابھی تک اس کی کچھ زندگی باقی ہے۔ اس کے بعد دوبارہ گھر کی چھت کھلی اور وہ دونوں فرشتے آسمان کی طرف چڑھ گئے، پھر چھت پہلے کی طرح بند ہو گئی۔

جب امام داؤد بن دینار رحمہ الله کو ہوش آیا، تو انہیں ادارک ہوا کہ الله تعالیٰ نے ان کی زندگی دراز کی ہے؛ تاکہ وہ اپنی کوتاہی کی اصلاح کر سکے، چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم کی تلاوت کی طرف اپنی توجّہ مبذول کی اور قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کے دوسرے علوم میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ (تاریخ دمشق ۱۷/۱۲۹-۱۳۱)

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب الله تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو الله تعالیٰ اس کو اپنی کوتاہیوں پر عجیب وغیرب طریقوں سے متنبہ فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنی اصلاح کی توفیق مرحمت فرماتے ہیں۔

نیز حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم صبح سویرے نیند سے بیدار ہو جائے، تو ہم یہ دعا پڑھیں:

اَلْحَمْدُ اللهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرْ (صحيح البخاري، الرقم: ٦۳۱٤)

”تمام تعریفیں الله کے لئے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف ہمیں اٹھ کر جانا ہے۔“

یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ الله تعالیٰ ہر دن ہمیں نئی زندگی عطا فرماتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنی زندگی سنوار لیں اور حقیقی موت سے پہلے پہلے اپنی کوتاہیوں کی تلافی کر لیں۔

لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہر دن اپنا محاسبہ کریں، اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کا ادراک کریں۔ پھر اپنی زندگی کی اصلاح اور اپنے خالق ومالک رب ذی الجلال والاکرام کو راضی کرنے کی انتھک کوشش کریں اور اس کا راستہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجّہ دیں اور روزانہ پانچ وقتوں کی نمازوں کے بعد بندہ کو چاہیئے کہ وہ الله تعالیٰ سے دعا کرے کہ الله تعالیٰ اس کو اپنی زندگی میں دین قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بہت سی دعائیں سکھائی ہیں۔ ان میں سے ایک جامع دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ عُمُرِيْ آخِرَهُ وَخَيْرَ عَمَلِيْ خَوَاتِيْمَهُ وَخَيْرَ أَيَّامِيْ يَوْمَ أَلْقَاکَ فِيْهِ (مجمع الزوائد، الرقم: ۱۷۲٦۷)

”اے الله! میری زندگی کے آخری حصّہ کو سب سے بہتر بنا اور میرے آخری عمل کو سب سے اچھا بنا اور میرے لئے اس دن کو سب سے بہتر بنا جس دن میں آپ سے ملوں گا۔“

الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگی درست کرنے اور زندگی کے تمام امور میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو خاتمہ بالخیر کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17233


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …