بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾ لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾ ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿۸﴾
ایک دوسرے سے زیادہ (دنیوی سازوسامان) حاصل کرنے کی لالچ نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے ﴿۱﴾ یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو ﴿۲﴾ ہرگز نہیں تم کو بہت جلد (مرتے ہی) معلوم ہو جائےگا ﴿۳﴾ پھر ہرگز نہیں تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائےگا ﴿۴﴾ ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے (تو ہرگز ایسا نہیں کرتے) ﴿۵﴾ تم یقیناً دوزخ کو دیکھ کر رہو گے ﴿۶﴾ پھر تم لوگ اس کو بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لوگے ﴿۷﴾ پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا (کہ کیا ان کا حق ادا کیا) ﴿۸﴾
تفسیر
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
ایک دوسرے سے زیادہ (دنیوی سازوسامان) حاصل کرنے کی لالچ نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے ﴿۱﴾ یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو ﴿۲﴾ ہرگز نہیں تم کو بہت جلد (مرتے ہی) معلوم ہو جائےگا ﴿۳﴾ پھر ہرگز نہیں تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائےگا ﴿۴﴾
دنیوی مال اور چیزوں کی ہوس اور ان کے حصول میں مقابلہ آرائی نے انسان کو اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد یہ ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرے اور جنّت کے حصول کے لئے کوشش کرے؛ لیکن افسوس ہے کہ دنیوی مال اور دولت کے اندر انسان منہمک ہو گئے اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کے حصول میں مقابلہ بازی کرنے میں الجھ گئے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی شکایت کر رہے ہیں کہ وہ زندگی بھر زیادہ سے زیادہ مال ودولت حاصل کرنے کی فکر کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور وہ قبر میں پہونچ جاتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن شخّیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت (سورۂ تکاثر) کی تلاوت فرما رہے تھے۔ سور ت پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم (فخر سے) کہتا ہے: میرا مال، میری دولت۔ جب کہ تمہیں تمہاری دولت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے سوائے اس کے جو تم نے کھا لیا اور ختم کیا یا تم نے پہن لیا اور پرانا کر لیا یا وہ مال جو تم نے صدقہ میں دے دیا اور آگے بھیج دیا (یعنی آخرت کے لئے بھیج دیا)۔
مسلم شریف کی حدیث میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا ہر مال سوائے اس کا جس کا تذکرہ مذکورہ بالا حدیث میں آیا ہے (اس کی موت کے بعد) دوسروں کے لئے (وارثین کے لئے) رہ جائےگا۔
انسان کی فطرت ہے کہ اس کو جتنا بھی مال مل جائے وہ اس پر قناعت نہیں کرےگا؛ بلکہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے اور اس کو بڑھانے کی فکر میں لگا رہےگا۔ انسان کے اُسی بے انتہا حرص اور ہوس کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر آدم کے بیٹے کو سونے کی ایک وادی مل جائے، تو وہ دوسری وادی کی تمنّا کرےگا اور (بالآخر) قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی بھی چیز اس کا پیٹ نہیں بھرےگی۔ اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتے ہے۔ (بخاری شریف)
کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾
ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے(تو ہر گز ایسا نہیں کرتے) ﴿۵﴾
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ اے لوگو ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے تو ہرگز تم ایسا نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر تم موت کی حقیقت پر سوچتے اور اپنے انجام پر غورو فکر کرتے کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے اور دنیا کے اسباب ومتاع کو چھوڑ کر جانا ہے، تو تم ہرگز دنیا میں مشغول ہو کر آخرت سے غفلت نہ برتتے۔
لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾
تم یقیناً دوزخ کو دیکھ کر رہو گے ﴿۶﴾پھر (مکرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے کہ )تم لوگ اس کو بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لوگے ﴿۷﴾
یقین کے مختلف درجات ہوتے ہیں: یقین کا پہلا درجہ علم الیقین ہے۔ علم الیقین یہ ہے کہ آدمی کو کسی چیز کا یقین ذہنی طور پر حاصل ہو۔ یقین کا دوسرا درجہ عین الیقین ہے عین الیقین یہ ہے کہ ذہن میں جس چیز کا یقین تھا آدمی اس یقینی بات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے اور یہ عین الیقین کا درجہ یقین کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ کسی چیز کو دیکھ کر جو یقین حاصل ہوتا ہے، اس کا درجہ اس یقین سے بڑھ کر ہے۔ اس یقین کے مقابلہ میں جو صرف علم سے حاصل ہو، مثال کے طور پر ایک آدمی کو سانپ اور اس کے ضرر کے بارے میں پختہ علم ہو؛ لیکن جب سانپ اس آدمی کے سامنے آتا ہے اور وہ اس کے ضرر کا مشاہدہ کرتا ہے، تو سانپ کے متعلق اس کا یقین بڑھتا ہے اور اس کا یقین علم الیقین سے عین الیقین تک پہنچتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا پورا علم تھا اور سانپ کے بارے میں بھی ان کو واقفیت تھی؛ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ لاٹھی سانپ کی شکل میں بدل گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً پیچھے ہٹ کر بھاگنے لگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو دیکھ کر مشاہدہ کرنا اس چیز کے محض علم رکھنے سے مختلف ہے یعنی عین الیقین کا درجہ علم الیقین کے درجہ سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔
ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿۸﴾
پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا (کہ ان کا کیا حق ادا کیا ) ﴿۸﴾
قیامت کے دن ہر انسان سے ان تمام نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا جن سے اس نے دنیا میں فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر وقت، صحت اور مال وغیرہ سے متعلق پوچھا جائےگا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا
بے شک کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال ہوگا۔
یہ آیتِ کریمہ ہمیں واضح طور پر بتا رہی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے کان، آنکھ اور دل ودماغ وغیرہ کے متعلق سوال ہوگا کہ اس نے ان نعمتوں کا استعمال گناہوں اور نافرمانیوں میں کیا یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری میں کیا۔ اسی طرح یہ بھی سوال ہوگا کہ اس نے اعمال کرتے وقت کیا نیّت کی اور اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے بارے میں اس نے کیا گمان کیا۔ ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) کوئی بھی انسان اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہلے گا، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے:
(۱) عمر کس چیز میں گزاری؟
(۲)جوانی کس چیز میں صرف کی؟
(۳)مال کہاں سے حاصل کیا؟
(۴) مال کہاں خرچ کیا؟
(۵) اور علم پر کتناعمل کیا؟
عام طور پر لوگ علم کو قابل فخر چیز سمجھتے ہیں؛ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ علم دین انتہائی مہتم بالشان نعمت ہے، ہم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہوگا کہ ہم نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؛ لہذا اگر ہم نے اپنے علم پر عمل نہیں کیا، تو قیامت کے دن ہمارا مؤاخذہ ہوگا۔