قیام
(۱) جب آپ نماز پڑھنے کا ارادہ کریں، تو قبلہ کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہو جائیں۔ [۱]
(۲) پھر اس نماز کی نیّت کریں، جو آپ ادا کرنے والے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو اٹھائے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہو۔ [۲]
(۳) جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں، تو پورے ادب واحترام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ دونوں پیروں کا رخ قبلہ کی طرف کرلیں اور دونوں پیروں کے درمیان تقریباً چار انگلیوں کا فاصلہ رکھیں۔ اور جب جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہوں، تو صفیں سیدھی کرلیں، صفوں کے درمیان فاصلہ بالکل نہ چھوڑیں اور جہاں تک ہو سکے، ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوں۔ پیروں کو اس طرح نہ پھیلائیں کہ ایک آدمی کے پیر کی انگلیاں دوسرے آدمی کے پیر کی انگلیوں سے مل رہی ہوں۔ [۳]
(۴) جب ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھائیں، تو اس بات کا اچھی طرح خیال رکھیں کہ ہتھیلیاں قبلہ رُخ ہوں اور انگلیاں اپنی فطری ہیئت پر ہوں (نہ تو پھیلی ہوئی ہوں اور نہ ملی ہوئی ہوں)۔ [٤]
(۵) تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت اپنے سر کو سیدھا رکھیں۔ تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت اپنے سر کو نہ تو آگے کی طرف جھکائیں اور نہ پیچھے کی طرف؛ بلکہ بالکل سیدھا رکھیں۔ [۵]
(۶) ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر تک اٹھانے کے بعد تکبیرِ تحریمہ کہیں (اللہ اکبر کہیں)۔ [٦]
(۷) تکبیر کہتے ہوئے ہاتھوں کو نیچے کریں اور ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھ لیں۔ [۷]
(۸) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھیں۔ [۷]
(۹) دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے (چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے) بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑیں اور بقیہ تینوں انگلیاں بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھیں۔ [۸]
(۱۰) آپ اپنی نگاہ اِدھر اُدھر نہ پھیریں، بلکہ صرف سجدہ کی جگہ پر رکھیں۔ [۹]
(۱۱) جب آپ نماز شروع کر دیں، تو خاموشی سے ثنا پڑھیں: [۱۰]
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ
اے اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے آپ ہی کے لیے تعریف ہے۔ آپ کا نام بابرکت ہے۔ آپ کا مرتبہ انتہائی عظیم ہے اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
نوٹ:- امام، مقتدی اور منفرد ثنا پڑھے۔
(مقتدی یعنی امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا اور منفرد اکیلے نماز پڑھنے والا)۔ [۱۱]
(۱۲) تعوّذ تسمیہ آہستہ پڑھیں۔ [۱۲]
تعوّذ یہ ہے:
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم
(میں مردود شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں)
تسمیہ یہ ہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
(میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان اور انتہائی رحم کرنے والا ہے)
(۱۳) ثنا، تعوّذ اور تسمیہ آہستہ آواز سے پڑھنے کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھیں اور اس کے بعد کوئی سورت یا قرآنِ کریم کی کسی بھی جگہ سے پڑھیں۔ [۱۳]
(۱۴) سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد آہستہ آواز سے آمین کہیں، خواہ آپ تنہا نماز ادا کر رہے ہیں یا آپ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ [۱۴]
(۱۵) اگر آپ سورۂ فاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے آہستہ آواز میں تسمیہ پڑھیں پھر دوسری سورت شروع کریں۔ [۱۴]
نوٹ:- (ا) تعوّذ اور تسمیہ صرف امام اور منفرد (تنہا نماز پڑھنے والے) پڑھیں گے۔ مقتدی تعوّذ اور تسمیہ نہیں پڑھےگا؛ [۱۳] بلکہ وہ ثنا پڑھنے کے بعد امام کے پیچھے دورانِ قیام خاموش رہےگا۔
(ب) مقتدی امام کے پیچھے کوئی تلاوت نہیں کرےگا۔ سورۂ فاتحہ نہیں پڑھےگا اور کوئی سورت بھی نہیں پڑھےگا۔ مقتدی کے لیے امام کے پیچھے ہر طرح کی قراءت پڑھنا (خواہ سورۂ فاتحہ کی قراءت ہو یا کوئی اور آیات کی قراءت ہو) ناجائز ہے اور مکروہِ تحریمی ہے۔ [۱۵]
(۱۶) اگر آپ تین یا چار رکعت والی فرض نماز ادا کر رہے ہیں، تو تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں۔ سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی اور سورت نہ پڑھیں۔
فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف امام اور منفرد سورۂ فاتحہ پڑھیں گے۔ مقتدی (امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا) تمام رکعتوں میں خاموش رہےگا اور وہ کسی بھی رکعت میں کچھ نہیں پڑھےگا۔ [۱۶]
(۱۷) اگر آپ سنت یا نفل نماز ادا کر رہے ہیں، تو تمام رکعتوں میں قراءت کریں (یعنی سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھیں) یعنی خواہ آپ دو رکعت والی سنت یا نفل نماز ادا کر رہے ہیں یا چار رکعت والی سنت یا نفل نماز ادا کر رہے ہیں۔ ہر رکعت میں قراءت واجب ہے (یعنی سورۂ فاتحہ اور سورت کی قراءت واجب ہے)۔ [۱۷]
[۱] شروط الصلاة وهي عندنا سبعة … واستقبال القبلة (الفتاوى الهندية ۱/۵۸، البحر الرائق ۱/۲۸۳)
[۲] رفع يديه حذاء أذنيه حتى يحاذي بإبهاميه شحمتي أذنيه وبرؤوس الأصابع فروع أذنيه (الفتاوى الهندية ۱/۷۳)
فالأول من شروط صحة التحريمة أن توجد مقارنة للنية حقيقية أو حكما (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۲۱۷)
[۳] وينبغي أن يكون بين قدميه أربع أصابع في قيامه كذا في الخلاصة (الفتاوى الهندية ۱/۷۳، رد المحتار ۱/٤٤٤)
(ويصف) أي يصفهم الإمام بأن يأمرهم بذلك قال الشمني وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم (الدر المختار ۱/۵٦۸)
ويكره أن يحرف أصابع يديه أو رجليه عن القبلة في السجود وغيره كذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية ۱/۱٠۸)
[٤] قال الفقيه أبو جعفر يستقبل ببطون كفيه القبلة (الفتاوى الهندية ۱/۷۳، رد المحتار ۱/٤۸۲)
وإذا رفع يديه لا يضم أصابعه كل الضم ولا يفرج كل التفريج بل يتركها على ما كانت عليه بين الضم والتفريج (الفتاوى الهندية ۱/۷۳)
[۵] ولا يطأطأ رأسه عند التكبير (الفتاوى الهندية ۱/۷۳)
[٦] (ورفع يديه) قبل التكبير وقيل معه
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قبل التكبير وقيل معه) الأول نسبه في المجمع إلى أبي حنيفة ومحمد وفي غاية البيان إلى عامة علمائنا وفي المبسوط إلى أكثر مشايخنا وصححه في الهداية والثاني اختاره في الخانية والخلاصة والتحفة والبدائع والمحيط بأن يبدأ بالرفع عند بداءته التكبير ويختم به عند ختمه وعزاه البقالي إلى أصحابنا جميعا ورجحه في الحلية وثمة قول ثالث وهو أنه بعد التكبير والكل مروي عنه عليه الصلاة والسلام وما في الهداية أولى كما في البحر والنهر ولذا اعتمده الشارح فافهم (رد المحتار ۱/٤۸۲)
[۷] وضع يمينه على يساره تحت سرته (الفتاوى الهندية ۱/۷۲)
[۸] ويأخذ الرسغ بالخنصر والإبهام ويرسل الباقي على الذراع (الفتاوى الهندية ۱/۷۳)
[۹] نظر المصلي إلى موضع سجوده قائما (نور الإيضاح صـ ۷۲)
[۱۰] عن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استفتح الصلاة قال سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك (سنن أبي داود، الرقم: ۷۷٦)
[۱۱] (ويستفتح كل مصل) سواء المقتدي وغيره ما لم يبدأ الإمام بالقراءة (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۲۸۱)
[۱۲] (ثم يتعوذ) … (سرا للقراءة) … (فيأتي به المسبوق) … (لا المقتدي) لأنه للقراءة ولا يقرأ المقتدي … (ثم يسمي سرا) … (ويسمي) كل من يقرأ في صلاته (في كل ركعة) (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۲۸۱-۲۸۲)
[۱۳] (ثم قرأ الفاتحة وأمن الإمام والمأموم سرا ثم قرأ سورة أو) قرأ (ثلاث آيات) قصار أو آية طويلة وجوبا (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۲۸۲)
[۱٤] (لا) تسن (بين الفاتحة والسورة مطلقا) ولو سرية ولا تكره اتفاقا
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله قوله (لا تسن) مقتضى كلام المتن أن يقال لا يسمي لكنه عدل عنه لإبهامه الكراهة بخلاف نفي السنية ثم إن هذا قولهما وصححه في البدائع وقال محمد تسن إن خافت لا إن جهر بحر ونسب ابن الضياء في شرح الغزنوية الأول إلى أبي يوسف فقط فقال وهذا قول أبي يوسف وذكر في المصفي أن الفتوى على قول أبي يوسف أنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها وذكر في المحيط المختار قول محمد وهو أن يسمي قبل الفاتحة وقبل كل سورة في كل ركعة (رد المحتار ۱/٤۹٠)
[۱۵] (ولا يقرأ المؤتم بل يستمع) حال جهر الإمام (وينصت) حال إسراره لقوله تعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا وقال صلى الله عليه وسلم يكفيك قراءة الإمام جهر أم خافت واتفق الإمام الأعظم وأصحابه والإمام مالك والإمام أحمد بن حنبل على صحة صلاة المأموم من غير قراءته شيئا وقد بسطته بالأصل (و) قلنا (إن قرأ) المأموم الفاتحة وغيرها (كره) ذلك (تحريما) للنهي (مراقي الفلاح مع حاشية الطحطاوي صـ ۲۲۷)
[۱٦] وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة كذا في النهر الفائق وفي جميع ركعات النفل والوتر هكذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية ۱/۷۱)
(ولا يقرأ المؤتم خلف الإمام) خلافا للشافعي رحمه الله في الفاتحة له أن القراءة ركن من الأركان فيشتركان فيه ولنا قوله عليه الصلاة والسلام من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة وعليه إجماع الصحابة رضي الله عنهم وهو ركن مشترك بينهما لكن حظ المقتدي الإنصات والاستماع قال عليه الصلاة والسلام وإذا قرأالإمام فأنصتوا ويستحسن على سبيل الاحتياط فيما يروى عن محمد رحمه الله ويكره عندهما لما فيه من الوعيد (الهداية ۱/۵٦)
[۱۷] (ثم) كما فرغ (يكبر) مع الإنحطاط (للركوع) للتمكن
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله مع الإنحطاط) أفاد أن السنة كون إبتداء التكبير عن الخرور وانتهاءه عند استواء الظهر (رد المحتار ۱/٤۹۳)