بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾ مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾ یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۙ﴿۴﴾ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ ؕ﴿۵﴾ فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۶﴾ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ؕ﴿۷﴾ وَاَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۸﴾ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا ہِیَہۡ ﴿ؕ۱۰﴾ نَارٌ حَامِیَۃٌ ﴿۱۱﴾
کھڑ کھڑانے والی چیز ﴿۱﴾ کیا ہے وہ کھڑ کھڑانے والی چیز ؟ ﴿۲﴾ اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی چیز کیا ہے ؟ ﴿۳﴾ جس روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے ﴿۴﴾ اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے ﴿۵﴾ پھر جس شخص کا پلہّ بھاری ہوگا ﴿۶﴾ تو وہ پسندیدہ عیش وآرام میں ہوگا ﴿۷﴾ اور جس شخص کا پلہّ ہلکا ہوگا ﴿۸﴾ تو اس کا ٹھکانہ ”ہاویہ“ (نامی دوزخ) ہوگا ﴿۹﴾ اورآپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ (ہاویہ) کیا چیز ہے ؟ ﴿۱۰﴾ وہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے ﴿۱۱﴾
تفسیر
اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾ مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾
کھڑ کھڑانے والی چیز ﴿۱﴾ کیا ہے وہ کھڑ کھڑانے والی چیز ؟ ﴿۲﴾ اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی چیز کیا ہے ؟ ﴿۳﴾
اس سورت میں الله سبحانہ وتعالیٰ نے لوگوں کی انتہائی بے بسی، بے چارگی اورحیرانی کا نقشہ کھینچا ہے، جو ان سے قیامت کے روز ظاہر ہوگا۔ قیامت کے روز لوگ حساب وکتاب کے بے حد خوف اور فکر کی وجہ سے ادھر اُدھر بھاگیں گے۔ ایک دوسری آیت میں الله تعالیٰ نے اُس دن کی منظر کشی ان الفاظ میں بیان کی ہے:
یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡه ﴿ۙ٣٤﴾ وَ اُمِّه وَ اَبِیۡه ﴿ۙ۳۵﴾ وَصَاحِبَتِه وَ بَنِیۡه ﴿ؕ٤٦﴾ لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡهمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡه ﴿ؕ۳۷﴾
(جس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگےگا۔ اس دن ان میں سے ہر ایک کو اپنی ہی ایسی فکر ہوگی، جو اس کو دوسرے سے بے توجہ کر دےگی)
یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۙ﴿۴﴾
جس روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے ﴿۴﴾
اس آیتِ میں الله تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اتنے پریشان ہوں گے کہ وہ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے، ہر ایک کو اپنی فکر لاحق ہوگی اور کوئی کسی کی مدد نہیں کرےگا۔
وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ ؕ﴿۵﴾
اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے ﴿۵﴾
دنیا کے اندر پہاڑوں کی یہ کیفیت ہے کہ وہ انتہائی مضبوطی اور قوّت کے ساتھ اپنی جگہ قائم ہیں، کوئی چیز ان کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی ہے؛ لیکن قیامت کے دن سارے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور دھنکی ہوئی اون کی طرح ہلکے پھلکے ہو کر ہوا میں اڑیں گے۔
فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۶﴾ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ؕ﴿۷﴾ وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۸﴾ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا ہِیَہۡ ﴿ؕ۱۰﴾ نَارٌ حَامِیَۃٌ ﴿۱۱﴾
پھر جس شخص کا پلہّ بھاری ہوگا ﴿۶﴾تو وہ پسندیدہ عیش وآرام میں ہوگا ﴿۷﴾ اور جس شخص کا پلہّ ہلکا ہوگا ﴿۸﴾تو اس کا ٹھکانہ ”ہاویہ “ (نامی دوزخ ) ہوگا ﴿۹﴾اورآپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ (ہاویہ ) کیا چیز ہے﴿۱۰﴾وہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے ﴿۱۱﴾
قیامت کے دن لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال کو ترازو پر تولا جائےگا۔ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اعمال کو دو مرتبہ تولا جائےگا۔
پہلی مرتبہ مؤمنین کے ایمان کو تولا جائےگا؛ تاکہ مؤمنین اور کافرین کے درمیان تفریق اور تمییز ہو جائے۔ دوسری مرتبہ مؤمنین کے اعمال کو تولا جائےگا؛ تاکہ مؤمنین کے اچھے اور بُرے اعمال کے درمیان تفریق اور تمییز ہو جائے۔
اس سورت میں جس ”وزنِ اعمال“ (اعمال کا تولنا) کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ ”پہلا وزن“ ہے؛ کیونکہ ان کے پاس پہلے وزن میں ایمان والوں کا ترازو بھاری ہو جائےگا اور کافروں کا ترازو ہلکا ہو جائےگا؛ کیونکہ ان کے پاس ایمان کی دولت نہیں ہوگی۔
حدیث شریف میں بعض ایسے اعمال بتلائے گئے جو قیامت کے دن میزان کو بھاری کریں گے اور بے پناہ اجر وثواب کے حصول کا باعث ہوں گے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل پانچ اعمال ہیں:
(۱) اخلاص فی العمل: اخلاص ایک ایسا عمل ہے جو نیک اعمال کی قدر وقیمت اور ان کے ثواب کو بڑھاتا ہے۔ ہمارے اندر جتنا زیادہ اخلاص ہوگا، ہمارا میزان اتنا زیادہ بھاری ہوگا اور اسی حساب سے ہمارا ثواب ہوگا۔
(۲) ہر کام میں اتباعِ سنّت: اتباع سنت نیک اعمال میں حسن اور خوب صورتی پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے قیامت کے دن عمل کا وزن بھاری ہوگا اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
واضح رہے کہ نیک اعمال کے اندر حسن اعمال کی کثرت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ عمل کے اندر حسن اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب اس کو سنّت کے مطابق کیا جائے۔
(۳) خاموشی اور غیر ضروری باتوں سے اجتناب: خاموش رہ کر الله تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہونا اور لایعنی امور سے پرہیز کرنا، ایسے نیک اعمال ہیں جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کے باعث ہیں اور قیامت کے روز میزانِ عمل کو بھاری کرنے والے ہیں۔
(٤) حسن اخلاق: لوگوں کے ساتھ ادب واحترام اور رواداری سے پیش آنا ایک ایسا عمل ہے جو قیامت کے دن ہمارے میزانِ عمل کو وزنی بنائےگا۔
(۵) کلمہ”لا الٰه الا الله“ کی کثرت: حدیث شریف میں وارد ہے جو شخص لا الٰه الا الله کو کثرت سے پڑھے تو یہ ذکر قیامت کے دن اس کے میزان عمل کو بہت زیادہ وزنی بنائےگی؛بشرطیکہ وہ اس ذکر کو اخلاص کے ساتھ پڑھے۔
یہ اعمال انتہائی مہتم بالشان اعمال ہیں۔ ہر مؤمن کو ان پر عمل کرنا چاہیئے؛ کیونکہ ان کی وجہ سے ہماری نیکیاں بڑھیں گی اور قیامت کے دن ہمارے میزان کے پلڑے بھاری ہوں گے۔
احادیثِ مبارکہ میں متعدد افعال کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے نیک اعمال کی قدروقیمت گھٹا دیتے ہیں۔ ہر مسلمان کو چاہیئے کہ ان تمام اعمال سے اجتناب کرے، جو قیامت کے دن اس کے میزانِ عمل کو ہلکا کر دیں گے۔ ان افعال میں سے کچھ افعال مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) لوگوں کو کسی بھی طریقہ سے تکلیف دینا اور ان پر ظلم کرنا۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے جواب دیا کہ ہم اس کو مفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ کوئی مال ومتاع ہو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امّت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں، روزے اور زکوٰۃ لے کر آئےگا اور ساتھ ہی وہ یہ لے کر آئےگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا ہوگا؛ لہذا اس کو (مظلوم کو) اس کی نیکیوں میں سے دے دیا جائےگا۔ پھر جب اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور جو اس کے اوپر حقوق ہوں گے وہ ختم نہیں ہوئے ہوں گے، تو ان مظلوموں کے گناہ اس کے اوپر ڈال دیئے جائیں گے اور اس کو جہنّم میں پھینک دیا جائےگا۔ (مسلم شریف)
(۲) ریا کاری اور شہرت کے لئے نیک کام کرنا (اخلاص کے بغیر نیک کام کرنا)۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن جن تین لوگوں کو سب سے پہلے جہنّم میں ڈالا جائےگا ان میں ایک عالم ہوگا جس نے پوری زندگی دین کی خدمت کی ہوگی، دوسرا مال دار ہوگا جس نے بہت زیادہ مال الله تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا ہوگا اور تیسرا مجاہد ہوگا جس نے الله تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کیا ہوگا؛ لیکن ان سب کو اوندھے منھ جہنّم میں ڈال دیا جائےگا؛ اس لئے کہ انہوں نے یہ سارے اعمال اخلاص کے بغیر لوگوں کو دکھانے کے لئے کئے تھے۔ (مسلم شریف)
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھی، روزہ رکھا یا زکوٰۃ دی، اس نے شرک کیا (الله تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا) ایسے آدمی کو اس کے نیک عمل کا کوئی ثواب نہیں ملےگا۔ (المعجم الکبیر)
ایک اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص ریا کاری کے لئے اچھا عمل کرتا ہے، قیامت کے دن الله تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ میرا کوئی شریک نہیں ہے؛ لیکن تم نے نیک عمل میں میرا شریک ٹھہرایا؛ لہذا میں تمہیں کوئی ثواب نہیں دوں گا۔ تم اس شخص کے پاس جاؤ اور ثواب مانگ لو جس کو دکھانے کے لئے تم نے وہ نیک عمل کیا تھا۔ (صحیح ابن خزیمہ)
(۳) نشہ آور چیز کا پینا یا حرام چیز کا کھانا۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو آدمی حرام کھائے یا نشہ آور چیز پیئے، اس کی دعا اور عبادتیں قبول نہیں کی جاتی ہیں، لہذا قیامت کے دن ایسے شخص کو اس کے نیک اعمال کا کوئی ثواب نہیں ملےگا، الاّ یہ کہ وہ گناہوں سے توبہ کر لے اور اپنی زندگی درست کر لے۔
(٤) نماز چھوڑنا۔
نماز چھوڑنے سے انسان کے نیک اعمال کا وزن گھٹ جاتا ہے، لہذا قیامت کے دن نماز چھوڑنے والے کو اس کے نیک اعمال کا وہ ثواب نہیں ملےگا، جس کی اس کو توقع ہوگی۔
(۵) زکوٰۃ نہ دینا۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ہے، اس کو زکوٰۃ کی عدمِ ادائیگی کے گناہ کے علاوہ نماز کے ثواب سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر چہ نماز کی فرضیّت اور ذمہ داری ادا ہو جائےگی؛ لیکن اس کو کوئی ثواب نہیں ملےگا۔
لہذا ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے اعمال کی فکر کرے۔ کسی بھی عمل کو خواہ وہ اچھا ہو یا خراب معمولی نہ سمجھے۔ اس لئے وہ خراب عمل جس کو اس نے چھوٹا سمجھا اس کی سزا کا سبب بنےگا، اسی طرح وہ نیک عمل جس کو اس نے معمولی سمجھا، وہی نیک عمل اخلاص و للہیت اور اتباعِ سنّت کی وجہ سے میزانِ عمل کو وزنی بنا دےگا اور اس کی نجات ومغفرت اور دخولِ جنّت کا ذریعہ بن جائےگا۔